کراچی کا شیدی میلہ، دلچسپ روایات کی صدیوں پرانی کڑی

کراچی میں’منگھوپیر‘ کے نام سے مشہور ایک علاقے کی وجہ شہرت ’خواجہ حسن سخی سلطان منگھوپیر بابا‘ کا قدیم مزار ،ہرسال یہاں لگنے والا شیدی میلہ اور روایات کے مطابق یہاں کے تالاب میں موجود سو، سو سال کی عمر کے ’بوڑھے ‘مگر مچھ ہیں۔

سلطان بابا کا مزارکراچی کے قدیم شہریوں کیلئے، جو اپنے آپ کو’ شیدی‘ قوم کا بتاتے ہیں، سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ یہ بلوچی قبیلے کے لوگ ہیںاور اپنی صدیوں پرانی روایات کے مطابق مزار پر ہر سال شیدی میلہ منعقد کرتے ہیں ۔

مزاروں کی دیکھ بھال کرنے والے محکمہ اوقاف کے ایک عہدیدار امین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سید سخی سلطان منگھوپیر بابا کا عرس اسلامی مہینے ذوالحج میں ہوتا ہے لیکن شیدی میلے کا اس سے براہ راست کوئی تعلق نہیں۔ یہ شیدی قوم کے بزرگوں کی جانب سے تاریخ مقرر ہونے پر منایا جاتا ہے۔

رواں سال اتوار کو یہ میلہ سطح سمندر سے تقریباً 600 فٹ بلند ایک پہاڑی چوٹی پر واقع خواجہ حسن سلطان بابا کے مزار پر منعقد کیا گیا۔ میلے میں خواتین، بچوں اور مردوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی ۔اس دوران مزار پر چادر چڑھائی گئی۔ ایک خاص اور روایتی انداز میں جلوس نکالا گیا۔ افریقی طرز کے خاص ڈھول ’مگرمین‘ پر روایتی قسم کا رقص کیا گیا اور بکرے ذبح کئے گئے۔

بکروں کا گوشت مزار کے قریب ہی واقع تالاب میں موجود درجنوں مگر مچھوں کو کھلایا گیا۔ مگر مچھ کی پیٹھ پر روایتی انداز میں پھول رکھے گئے اور چڑھاوے چڑھائے گئے ۔ یہ روایت مزار پر آنے والوں کے لئے نہایت دلچسپی کا باعث ہوتی ہے ۔ اس میں صرف شیدی قوم کے لوگ ہی شرکت کر سکتے ہیں۔

’ شیدی‘ صدیوں پہلے افریقہ سے ہجرت کر کے یہاں آئے تھے۔ اس لئے ان کا رہن سہن اور بود و باش آج بھی افریقی طرز کا ہے۔

دلچسپ بات یہ بھی تھی کہ مگر مچھ تالاب سے نکل کر لوگوں کے درمیان خشکی پر آ گئے اور انہوں نے بہت خاموشی سے لوگوں کو اپنی روایات پوری کرنے کا موقع دیا اور کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا ۔

مگر مچھ سے جڑی ایک اور روایت کے بارے میں وہاں موجود لوگوں نے بتایا کہ ’سندھ کے صوفی بزرگ قلندر شہباز جب سلطان بابا سے ملاقات کے لئے منگھوپیر آئے تھے تو مگرمچھ ان کی سواری تھے۔‘

ان مگر مچھوں سے جڑی ایک روایت یہ بھی ہے کہ سلطان بابا نے تالاب میں جو پھول پھینکے تھے وہ مگر مچھ بن گئے۔

کراچی میں مقیم مختلف افراد، قبائل اور قوموں پر تحقیق کی ماہر اور کئی کتابوں کی مصنفہ رومانہ حسین کے مطابق ’ مزار کے احاطے میں موجود مگرمچھوں کے بارے میں بہت سی روایات گردش کرتی ہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ مگرمچھ منگھوپیر کو بابا فرید نے بطور تحفہ دئیے تھے جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ یہ مگرمچھ حضرت لال شہباز قلندر کی جوئیں ہیں جن کی وجہ سے خشک اور بنجر زمین پر چشمہ پھوٹ نکلا۔‘

اس جھرنے سے بھی یہ روایت جڑی ہے کہ اگر جلد کی کسی بھی بیماری میں مبتلا شخص یا مریض جھرنے کے پانی سے نہالے تو اس کے تمام ’روگ بھاگ‘ جاتے ہیں۔