وزیرستان آپریشن کے کسی ممکنہ رد عمل سے بچنے کے لئے کراچی کے اہم ترین مقامات اور تنصیبات پر پیر سے پولیس، رینجرز اور فوج تعینات کردی گئی ہے۔ کراچی چھاوٴنی سے فوجی دستے ان مقامات پر پہنچ چکے ہیں جبکہ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ تعیناتی کاعمل رات بھر جاری رہے گا
کراچی —
وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کئے جانے کے بعد کراچی مزید حساس ہوگیا ہے، جسے مدنظر رکھتے ہوئے، پیر کی دوپہر سے ہی کراچی کا ریڈ زون ایریا، سندھ ہائی کورٹ، اسمبلی بلڈنگ، گورنر ہاوٴس اور وزیراعلیٰ ہاوٴس سمیت تمام اہم تنصیبات پر پولیس، رینجرز اور فوج تعینات کردی گئی ہے۔
ملیر کینٹ چھاوٴنی سے فوجی دستوں کی آمد پیر کی دوپہر شروع ہوئی اور شام ڈھلے تک جاری تھی۔ آئی آیس پی آر کے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق، فوجی دستوں کی تعیناتی رات بھر جاری رہے گی۔
تمام اہم سرکاری مقامات اور تنصیبات پر تین تین سیکورٹی حصار بنائے جارہے ہیں۔ پہلا حصار پولیس، دوسرا رینجرز اور تیسرا فوج کا ہوگا۔ ’وائس آف امریکہ‘ کے نمائندے نے پیر کی شام مختلف علاقوں کا دورہ کیا۔ کراچی کے ریڈ زون کو حساس ترین مقام قرار دیا گیا ہے۔
وزیرستان آپریشن کے کسی بھی رد عمل سے بچنے کے لئے وزیراعظم ہاوٴس، پی آئی ڈی سی، فائیو اسٹار ہوٹلز، گورنر ہاوٴس، ہائی کورٹ، سپریم کورٹ کراچی رجسٹری، ریلوے اسٹیشنز، ہوائی اڈے اور دیگر تمام اہم مقامات پر سیکورٹی کے انتظامات غیر معمولی طور پر سخت کردیئے گئے ہیں۔
شہر کے بیشتر مقامات پر کنٹینرز لگادیئے گئے ہیں جس سے پیر کی شام شہر کی مختلف اہم شاہراہوں پر ٹریفک کی روانی بری طرح متاثر ہوئی۔
کراچی کے حساس ہونے کی اہم ترین وجہ وہ عناصر بھی ہیں جو گزشتہ بار کے عسکری آپریشن کے بعد سے وزیرستان اور دیگر علاقوں سے اب تک مسلسل کراچی اور اندرون سندھ آکر بستے رہے ہیں۔ ان لوگوں میں جرائم پیشہ افراد بھی شامل ہیں۔ ان کی نشاندہی پولیس اور سیکورٹی فورسز کے ادارے بھی کرچکے ہیں اور بہت سے کیسز میں انہیں گرفتار بھی کیا جاچکا ہے۔
سندھ کی قوم پرست جماعتیں اور کراچی کی مختلف سیاسی قوتیں بھی گاہے بگاہے ان افراد کی بغیر کسی جانچ پڑتال کے مسلسل آبادکاری پر اعتراض اٹھاتی رہی ہیں۔
کراچی ایک میٹروپولیٹن شہر ہے اور ملک کا سب سے بڑا معاشی و تجارتی مرکز ہونے کی وجہ سے یہاں ہر شہر، دیہات اور قصبوں سے لوگوں کی سارا سال آمد و رفت کا سلسلہ رہتا ہے ۔
شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کئے جانے کے بعد دہشت گردوں کی جانب سے ممکنہ حملوں کے پیش نظر صرف کراچی میں ہی نہیں، بلکہ چاروں دارالحکومتوں سمیت ملک کے مختلف شہروں میں سیکورٹی انتہائی سخت کردی گئی ہے۔
مقامی میڈیا رپورٹس میں کہا جا رہا ہے کہ ملیر چھاوٴنی سے شہر کے مختلف علاقوں میں پہنچنے والے فوجی دستے بکتر بند گاڑیاں، ٹینکوں، توپ خانوں اور جدید اسلحے سے لیس ہیں۔ فوجی دستے کسی بھی ناگہانی صورتحال میں پولیس اور رینجر کی معاونت کریں گے۔
اس وقت کراچی میں متعدد علاقے ایسے ہیں جہاں دوسرے صوبوں سے آنے والوں کے ساتھ ساتھ غیرملکی بھی غیر قانونی طور پر آباد ہیں۔ سہراب گوٹھ اور اس کے نصف درجن سے زائد اطرافی علاقوں میں ان افراد کی بھرمار ہے۔ نمائندہ بذات خود ان علاقوں کا مشاہدہ کرچکا ہے۔
کراچی میں رینجرز کی جانب سے جرائم پیشہ افراد کے خلاف گزشتہ سال سے آپریشن جاری ہے جس کے تحت اب تک سینکڑوں علاقوں میں سیکورٹی فورسز کئی کئی بار سرچ آپریشنز کر چکی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود کراچی میں امن اب بھی دیوانے کا خواب ہے۔
کراچی کے وہ علاقے جو موجودہ حالات اور عسکری آپریشن کے حوالے سے سیکورٹی فورسز کی جانب سے حساس قرار دیئے گئے ہیں ان میں گلستان جوہر، اورنگی ٹاؤن، قصبہ کالونی، کٹی پہاڑی، بلدیہ ٹاؤن، سہراب گوٹھ، سائٹ، ناظم آباد، سرجانی ٹاؤن، قائدآباد اور دیگر درجن بھر سے زائد علاقے شامل ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ان علاقوں کے مکینوں کے متعلق معلومات کسی بھی ادارے کے پاس نہیں۔ حتیٰ کہ، سیکورٹی فورسز بھی اس سے لاعلم معلوم ہوتی ہیں۔
ملیر کینٹ چھاوٴنی سے فوجی دستوں کی آمد پیر کی دوپہر شروع ہوئی اور شام ڈھلے تک جاری تھی۔ آئی آیس پی آر کے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق، فوجی دستوں کی تعیناتی رات بھر جاری رہے گی۔
تمام اہم سرکاری مقامات اور تنصیبات پر تین تین سیکورٹی حصار بنائے جارہے ہیں۔ پہلا حصار پولیس، دوسرا رینجرز اور تیسرا فوج کا ہوگا۔ ’وائس آف امریکہ‘ کے نمائندے نے پیر کی شام مختلف علاقوں کا دورہ کیا۔ کراچی کے ریڈ زون کو حساس ترین مقام قرار دیا گیا ہے۔
وزیرستان آپریشن کے کسی بھی رد عمل سے بچنے کے لئے وزیراعظم ہاوٴس، پی آئی ڈی سی، فائیو اسٹار ہوٹلز، گورنر ہاوٴس، ہائی کورٹ، سپریم کورٹ کراچی رجسٹری، ریلوے اسٹیشنز، ہوائی اڈے اور دیگر تمام اہم مقامات پر سیکورٹی کے انتظامات غیر معمولی طور پر سخت کردیئے گئے ہیں۔
شہر کے بیشتر مقامات پر کنٹینرز لگادیئے گئے ہیں جس سے پیر کی شام شہر کی مختلف اہم شاہراہوں پر ٹریفک کی روانی بری طرح متاثر ہوئی۔
کراچی کے حساس ہونے کی اہم ترین وجہ وہ عناصر بھی ہیں جو گزشتہ بار کے عسکری آپریشن کے بعد سے وزیرستان اور دیگر علاقوں سے اب تک مسلسل کراچی اور اندرون سندھ آکر بستے رہے ہیں۔ ان لوگوں میں جرائم پیشہ افراد بھی شامل ہیں۔ ان کی نشاندہی پولیس اور سیکورٹی فورسز کے ادارے بھی کرچکے ہیں اور بہت سے کیسز میں انہیں گرفتار بھی کیا جاچکا ہے۔
سندھ کی قوم پرست جماعتیں اور کراچی کی مختلف سیاسی قوتیں بھی گاہے بگاہے ان افراد کی بغیر کسی جانچ پڑتال کے مسلسل آبادکاری پر اعتراض اٹھاتی رہی ہیں۔
کراچی ایک میٹروپولیٹن شہر ہے اور ملک کا سب سے بڑا معاشی و تجارتی مرکز ہونے کی وجہ سے یہاں ہر شہر، دیہات اور قصبوں سے لوگوں کی سارا سال آمد و رفت کا سلسلہ رہتا ہے ۔
شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کئے جانے کے بعد دہشت گردوں کی جانب سے ممکنہ حملوں کے پیش نظر صرف کراچی میں ہی نہیں، بلکہ چاروں دارالحکومتوں سمیت ملک کے مختلف شہروں میں سیکورٹی انتہائی سخت کردی گئی ہے۔
مقامی میڈیا رپورٹس میں کہا جا رہا ہے کہ ملیر چھاوٴنی سے شہر کے مختلف علاقوں میں پہنچنے والے فوجی دستے بکتر بند گاڑیاں، ٹینکوں، توپ خانوں اور جدید اسلحے سے لیس ہیں۔ فوجی دستے کسی بھی ناگہانی صورتحال میں پولیس اور رینجر کی معاونت کریں گے۔
اس وقت کراچی میں متعدد علاقے ایسے ہیں جہاں دوسرے صوبوں سے آنے والوں کے ساتھ ساتھ غیرملکی بھی غیر قانونی طور پر آباد ہیں۔ سہراب گوٹھ اور اس کے نصف درجن سے زائد اطرافی علاقوں میں ان افراد کی بھرمار ہے۔ نمائندہ بذات خود ان علاقوں کا مشاہدہ کرچکا ہے۔
کراچی میں رینجرز کی جانب سے جرائم پیشہ افراد کے خلاف گزشتہ سال سے آپریشن جاری ہے جس کے تحت اب تک سینکڑوں علاقوں میں سیکورٹی فورسز کئی کئی بار سرچ آپریشنز کر چکی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود کراچی میں امن اب بھی دیوانے کا خواب ہے۔
کراچی کے وہ علاقے جو موجودہ حالات اور عسکری آپریشن کے حوالے سے سیکورٹی فورسز کی جانب سے حساس قرار دیئے گئے ہیں ان میں گلستان جوہر، اورنگی ٹاؤن، قصبہ کالونی، کٹی پہاڑی، بلدیہ ٹاؤن، سہراب گوٹھ، سائٹ، ناظم آباد، سرجانی ٹاؤن، قائدآباد اور دیگر درجن بھر سے زائد علاقے شامل ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ان علاقوں کے مکینوں کے متعلق معلومات کسی بھی ادارے کے پاس نہیں۔ حتیٰ کہ، سیکورٹی فورسز بھی اس سے لاعلم معلوم ہوتی ہیں۔