سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل انور منصور کی سپریم جوڈیشل کونسل میں نمائندگی اور جواب جمع کرانے پر اعتراض اٹھا دیا ہے۔
جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ اٹارنی جنرل صرف وفاقی حکومت کو قانونی معاملات میں مشورہ دینے کا پابند ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کے معاملے پر سپریم جوڈیشل کونسل کے جواب پر اعتراضات جمع کرا دیے ہیں۔
اس سے قبل اٹارنی جنرل انور منصور نے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں کہا تھا کہ جائیدادیں بناتے وقت جسٹس فائز عیسی کی اہلیہ اور بچوں کی آمدن کے ذرائع نہیں تھے۔ وہ اس سوال سے بچنے کے لیے حیلے بہانے بنا رہے ہیں۔
حکومت نے سپریم کورٹ میں جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کے حوالے سے جواب جمع کرایا گیا تھا۔
حکومتی جواب میں کہا گیا تھا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بدنیتی پر مبنی نہیں ہے۔ صدر مملکت نے ریفرنس دائر کرکے آئینی ذمہ داری پوری کی ہے۔ شواہد کے بغیر ریفرنس بدنیتی پر مبنی قرار دینے کی کوئی حیثیت نہیں جب کہ ججز کے خلاف ریفرنس سے عدلیہ کمزور ہو گی۔ نہ ہی اس کے وقار پر حرف آئے گا۔
حکومت نے اپنے جمع کردہ جواب میں اعتراض کیا تھا کہ جائیدادیں بناتے وقت جسٹس فائز عیسی کی اہلیہ اور بچوں کی آمدن کے ذرائع نہیں تھے۔ قانون کے مطابق بے نامی جائیدادوں کو ظاہر کرنا لازمی تھا۔
جواب کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل جائزہ لے کہ جسٹس فائز عیسی مالی بے ضابطگیوں کے مرتکب ہوئے یا نہیں۔
حکومت کا کہنا تھا کہ جسٹس فائز عیسٰی مختلف حیلے بہانوں کے ذریعے جوڈیشل کونسل کی انکوائری سے بچنا چاہتے ہیں۔ وہ اصل سوال سے بچنا چاہتے ہیں کہ پیسہ باہر کیسے منتقل کیا گیا۔ ان کے پاس بچاؤ کا واحد راستہ اہلیہ اور بچوں کے ذرائع آمدن ظاہر کرنا ہے۔
جواب میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کا اپنے خلاف شکایت کو پراکسی کہنا مفروضے پر مبنی ہے۔ شکایت کنندہ کے ماضی اور کنڈکٹ کا جائزہ جوڈیشل کونسل قانون کے مطابق لے گی۔ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کا عدالتی جائزہ نہیں لیا جاسکتا۔ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو آرٹیکل 211 کے تحت استثنیٰ حاصل ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے اس حکومتی جواب پر اپنے جواب میں کہا ہے کہ اٹارنی جنرل کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل میں جواب جمع کرانا درست نہیں۔ کونسل کی جانب سے اٹارنی جنرل کو جواب جمع کرانے کی اجازت کا ریکارڈ موجود نہیں۔ اٹارنی جنرل صرف وفاقی حکومت کو قانونی معاملات میں مشورے دینے کا پابند ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے جواب کے مطابق سپریم کورٹ سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کے دائرہ اختیار سے باہر جانے پر کارروائی کا حکم دےچکی ہے۔
اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ کونسل کو اختیار حاصل نہیں تھا کہ اٹارنی جنرل کو جواب جمع کرانے کی ذمہ داری دیتی۔ کونسل کی جانب سے اٹارنی جنرل کو اپنا وکیل بنانا آئین کی شق 100 کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اٹارنی جنرل آف پاکستان انور منصور خان وفاقی حکومت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ میرے الزامات پر کونسل اور سیکریٹری کا جواب نہ آنے پرالزامات کو تسلیم شدہ تصور کیا جائے۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف اثاثہ جات ریکوری یونٹ کی درخواست پر سپریم جوڈیشل کونسل میں صدر مملکت کی طرف سے بھجوایا گیا ریفرنس دائر ہوا تھا۔
جسٹس فائز عیسیٰ کی طرف سے ان ریفرنسز کے خلاف پٹیشن دائر کرنے کے بعد ان ریفرنسز پر کارروائی روک دی گئی ہے۔
اس پٹیشن کی ابتدائی سماعت میں فائز عیسیٰ کی طرف سے دو جج صاحبان کے خلاف اعتراض اٹھایا گیا اور بینچ ٹوٹ گیا تھا جس کے بعد جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں نیا فل کورٹ تشکیل دیا گیا ہے۔
نئے بینچ نے کیس کی سماعت شروع کر دی ہے۔ ۔ آخری سماعت میں جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ اس کیس کو جلد نمٹانا چاہتے ہیں کیونکہ اس سے عدلیہ کا کام متاثر ہورہا ہے۔