رسائی کے لنکس

جسٹس قاضی عیسیٰ کے خلاف ریفرنس: عدلیہ کے وقار پر سوالیہ نشان؟


جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، فائل فوٹو
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، فائل فوٹو

سپریم کورٹ کے سینئر جج قاضی عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کریم خان آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس کی سماعت 14 جون سے شروع ہو رہی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ان پر اپنے اثاثے چھپانے کا الزام ہے اور ریفرنس کی سماعت کے بعد ممکنہ طور پر انہیں برخواست کیا جا سکتا ہے۔

معروف قانون دان بیرسٹر امجد ملک نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ جسٹس قاضی عیسیٰ سپریم کورٹ میں بلوچستان کی نمائندگی کرنے والے واحد جج ہیں جو اپنے دلیرانہ فیصلوں کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضی عیسیٰ نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دوران بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعہ پر بلوچستان کمشن کے سربراہ کی حیثیت سے اپنی رپورٹ میں حکومت کی سرزنش کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس وقت کے وزیر داخلہ نثار علی خان کی دفاع پاکستان کونسل کے وفد سے ملاقات انتہائی غیر مناسب اقدام تھا جس میں ایک کالعدم تنظیم کے سربراہ مولانا محمد احمد لدھیانوی بھی شامل تھے۔

اس وقت کی حکومت نے جسٹس قاضی عیسیٰ کے رپورٹ پر شدید تنقید کی تھی۔

بیرسٹر امجد ملک کا کہنا تھا کہ نومبر 2017 میں فیض آباد دھرنے کے حوالے سے بھی جسٹس قاضی عیسیٰ نے حکومت وقت اور حساس اداروں کو سخت الفاظ میں تنبیہ کی تھی جو ان کے خلاف اس ریفرنس کا بنیادی محرک ہے۔

بیرسٹر امجد ملک نے کہا کہ حکومت کو چاہئیے تھا کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہوئے مناسب اقدامات اختیار کرتی تاکہ اعلیٰ عدلیہ مناسب انداز میں کام کرتی رہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی مکمل طور پر خفیہ رکھی جاتی ہے۔ تاہم حکومتی حلقوں کی طرف سے اس کیس سے متعلق معلومات لیک ہونا قابل افسوس ہے۔

ممتاز دانشور اور سماجی امور کی پروفیسر ہما بقائی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس قاضی عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کے حوالے سے سامنے آنے والی تنقید حکومتی پابندیوں کے خلاف معاشرے کی طرف سے مزاحمت کا واضح اشارہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کا یہ بیانیہ رہا ہے کہ عدلیہ اپنے کام میں آزاد ہے۔ تاہم یوں لگ رہا ہے کہ اب صحافتی اداروں کے بعد اعلیٰ عدلیہ کو بھی حکومتی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

سپریم کورٹ بار ایسویسی ایشن نے موجودہ صورت حال کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کا ہر حال میں دفاع کیا جائے گا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس کے کے آغا کے خلاف ریفرنس کے معاملے پر حکومت نے فی الحال سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس کی تصدیق کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کر دیا ہے اور 14 جون کو سماعت ہو گی، جس میں اٹارنی جنرل بطور پراسیکیوٹر پیش ہوں گے۔

مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے تصدیق کی ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس 14 جون کو ہو گا جس میں اٹارنی جنرل پیش ہوں گے۔ انہوں نے مزید کچھ بتانے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی سماعت خفیہ رکھی جاتی ہے۔

دوسری جانب صدر سپریم کورٹ بار امان اللہ کنرانی نے اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا ہے کہ کسی ادارے اور حکومت کو جج کی عزت سے کھیلنے نہیں دیں گے۔ کسی کے خلاف کوئی شکایت ہے تو آئین اور قانون کے مطابق چلا جائے۔

سپریم کورٹ بار کے سابق صدر کامران مرتضیٰ کہتے ہیں کہ اگر جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف کوئی ریفرنس آیا تو اس پر شدید ردعمل آئے گا۔

سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف فیض آباد دھرنا کیس میں ان کے فیصلے اور اس میں دیے گئے ریمارکس پر بعض اداروں کی طرف سے اعتراضات کیے گئے تھے اور نظرثانی کی اپیلیں دائر کی گئیں تھیں۔ تاہم جسٹس فائز عیسیٰ اپنے فیصلوں کے حوالے سے وکلا اور عام لوگوں میں بہت مقبول ہیں۔

فائز عیسیٰ اور کے کے آغا کے خلاف بیرون ملک جائیداد کو اپنے اثاثوں میں ظاہر نہ کرنے کا الزام لگائے جانے کی اطلاعات ہیں، تاہم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بلوچستان میں ایک بڑی جائیداد کے مالک ہیں اور امان اللہ کنرانی کے بقول ان پر جو الزام لگایا جا رہا ہے اس سے کہیں زیادہ مال اور دولت سے اللہ نے انہیں نواز رکھا ہے۔

XS
SM
MD
LG