لاہور کی مقامی عدالت نے ریاستی اداروں کے خلاف متنازعہ ٹویٹس کرنے کے الزام میں گرفتار صحافی رضوان رضی کو ضمانت پر رہا کر دیا۔ رضوان رضی کے صاحبزادے اسامہ رضی نے اپنے والد کی رہائی کی تصدیق کر دی ۔
رضوان رضی کو اتوار کے روز وفاقی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے ڈیوٹی جوڈیشل مجسٹریٹ کے روبرو پیش کیا گیا۔ رضوان رضی کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ رضوان رضی کے خلاف قائم کیے گئے مقدمے میں کوئی مدعی نہیں۔ ایف آئی اے نے بغیر مدعی کس طرح کاروائی کی۔ وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ اس بات کا بھی تعین کیا جائے کہ کس کے ایما پر رضوان رضی کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔
ایف آئی اے کی جانب سے تفتیشی افسر رائے نصراللہ عدالت میں پیش ہوئے اور رضوان رضی کے 10 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کر دیا ۔ ڈیوٹی جوڈیشل مجسٹریٹ اسد سجاد نے ضمانتی مچلکوں کے عوض رضوان رضی کی ضمانت منظور کرتے ہوئے آئندہ انہیں محتاط رہنے کی ہدایت بھی کر دی ۔
جوڈیشل مجسٹریٹ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔ رضوان رضی آئندہ عدلیہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے احتیاط کریں ۔ صحافی رضوان رضی کو لاہور کے علاقے جوہر ٹاون میں ان کی رہائش گاہ کے باہر سے گرفتار کیا گیا تھا ۔
رضوان رضی نجی ٹی وی چینل 'دن نیوز' سے منسلک اور ٹوئٹر پر خاصے سرگرم تھے لیکن ان کی گرفتاری کے بعد سے ان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ معطل ہے۔
رضوان رضی کے صاحبزادے اسامہ رضی نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ ہفتے کی صبح ساڑھے دس بجے لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں ان کے گھر پر بعض نامعلوم افراد آئے تھے جنہوں نے ان کے والد پر تشدد کیا اور انہیں گاڑی میں بٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے۔
اسامہ رضی نے بتایا کہ ان کی والدہ اور اہلِ محلہ نے فائر کی آواز بھی سنی۔
ان کے بقول بعد میں انہیں معلوم ہوا کہ ان کے والد کو ایف آئی اے کے شادمان تھانے منتقل کیا گیا ہے۔
اسامہ رضی نے شبہ ظاہر کیا کہ ان کے والد کی گرفتاری میں کسی ایجنسی کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے رضوان رضی کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں فوج اور عدلیہ کے خلاف سوشل میڈیا پر قابلِ اعتراض مواد شائع کرنے کے الزام میں سائبر کرائم ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔
ایف آئی اے کے مطابق رضوان رضی کو پیر کو مقامی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
سوشل میڈیا پر رضوان رضی کی ایک تصویر بھی گردش کر رہی ہے جس میں انہیں ہتھکڑیاں لگی ہوئی ہیں۔
اس سے قبل پولیس نے لاہور کے معروف ایف سی کالج کے ایک استاد پروفیسر عمار جان کو ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کرلیا تھا۔
عمار جان کے والد خالد جان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب ان کے بیٹے کی ڈیفنس میں واقع رہائش گاہ پر ایک درجن سے زائد پولیس اہل کاروں نے اس وقت دھاوا بول دیا تھا جب تمام گھر والے سو رہے تھے۔
ان کے بقول جب وہ موقع پر پہنچے اور وارنٹ طلب کیے تو پولیس والوں نے بتایا کہ ان کے پاس وارنٹ گرفتاری ہیں لیکن وہ ابھی نہیں دکھا سکتے۔
ڈاکٹر خالد جان نے بتایا کہ ان کے بیٹے کیمبرج یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں اور ایف سی کالج میں پڑھاتے ہیں۔
ڈاکٹر خالد جان کے بقول عمار جان پولیس اور ریاستی اداروں کی حراست میں لوگوں کی ہلاکتوں کے خلاف تھے اور انہوں نے چند روز قبل لاہور میں پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما ارمان لونی کی ہلاکت کے خلاف احتجاج میں حصہ لیا تھا۔
ڈاکٹر خالد نے کہا کہ انہیں حکام نے بتایا ہے کہ ان کے بیٹے کو اس احتجاج میں شرکت پر گرفتار کیا گیا ہے۔
بعد ازاں لاہور کی ایک مقامی عدالت نے پروفیسر عمار جان کی ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم جاری کردیا۔
رضوان رضی اور عمار جان کی گرفتاریوں کے خلاف حکومت اور سکیورٹی اداروں پر سوشل میڈیا میں کڑی تنقید کی جا رہی ہے اور ان گرفتاریوں کو آزادیٔ اظہار کے خلاف قرار دیا جا رہا ہے۔
حزبِ اختلاف کی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے بھی رضوان رضی اور پروفیسر عمار کی گرفتاریوں کی مذمت کی ہے۔
پیپلزپارٹی پنجاب کے جنرل سیکریٹری چوہدری منظور نے کہا ہے رات کے آخری پہر کسی کو گھر سے اٹھا لینا کہاں کا انصاف ہے؟
انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا پشتوں تحفظ موومنٹ کے حق میں بات کرنا غداری ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی جانب سے رضوان رضی کی گرفتاری پر پنجاب اسمبلی میں ایک قرارد بھی جمع کرا دی گئی ہے۔
ن لیگ کی رکن پنجاب اسمبلی عظمیٰ بخاری کی جانب سے جمع کرائی گئی قرارداد میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ رضوان رضی کی گرفتاری اظہارِ رائے پر پابندی کی بدترین مثال ہے۔
وائس آف امریکہ نے ان دونوں گرفتاریوں پر حکمران جماعت تحریکِ انصاف کا ردِ عمل معلوم کرنے کی بھی کوشش کی لیکن پی ٹی آئی کے ایک ترجمان نے اس موضوع پر بات کرنے سے معذرت کرلی۔