پاکستان میں ذرائع ابلاغ کی نگرانی کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم نے دعویٰ کیا ہے کہ ملک میں آزادیٔ اظہار کو لاحق خطرات میں گزشتہ سال نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
'فریڈم نیٹ ورک' نامی تنظیم نے رواں ہفتے 'پریس فریڈم بیرومیٹر 2018ء' کے عنوان سے اپنی ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں پاکستان میں صحافیوں اور ذرائع ابلاغ کے خلاف 150 سے زائد واقعات اور زیادتیوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔
سولہ صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں آزادیٔ اظہار کو درپیش جن خطرات اور چیلنجز کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سرکاری کی جانب سے نافذ کی جانے والی سینسر شپ، صحافیوں کو تحریری اور زبانی دھمکیاں، قتل، انہیں ہراساں کرنا، گرفتاریاں، اغوا، غیر قانونی طور پر حراست میں رکھنا اور ان پر تشدد جیسے واقعات شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ان واقعات میں ریاستی اداروں کے علاوہ غیر ریاستی عناصر اور سیاسی اور مذہبی جماعتیں بھی ملوث تھیں۔
رپورٹ کے مطابق یکم مئی 2017ء سے یکم اپریل 2018ء کے دوران پاکستان کے تمام چار صوبوں، اسلام آباد اور قبائلی علاقوں میں صحافیوں اور آزادیٔ صحافت پر حملوں کے 157 واقعات رپورٹ ہوئے جن کا اوسط 15 واقعات فی مہینہ بنتا ہے۔
'فریڈم نیٹ ورک' کے ڈائریکٹر اقبال خٹک کا کہنا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی میں نمایاں کمی کے باوجود صحافی اور صحافت بدستور خطرات میں گھرے ہوئے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اقبال خٹک کا کہنا تھا کہ ان کا خیال تھا کہ پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں کمی کے صحافت پر مثبت اثرات پڑیں گے۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا اور پاکستان میں صحافت کو حاصل آزادی مزید محدود ہوگئی ہے۔
پاکستان کی حکومت نے تاحال اس رپورٹ اور ملک میں آزادیٔ صحافت کی مخدوش صورتِ حال پر کوئی ردِ عمل نہیں دیا ہے۔
رپورٹ ملک بھر سے جمع کی جانے والی ان شکایات پر مبنی ہے جن کا حکام یا متعلقہ ذمہ داروں کے پاس اندراج کرایا گیا تھا۔ رپورٹ میں اسلام آباد کو صحافت کے لیے پاکستان کا سب سے "خطرناک اورمشکل" شہر قرار دیا گیا ہے جہاں گزشتہ سال ملک بھر سے صحافیوں اور صحافت کے خلاف رپورٹ ہونے والے کل 157 واقعات میں سے 55 (35 فی صد) پیش آئے۔
صوبہ پنجاب فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے جہاں 17 فی صد واقعات پیش آئے۔ سولہ فی صد واقعات صوبۂ سندھ اور 14 فی صد بلوچستان سے رپورٹ ہوئے۔ کل شکایات میں سے خیبر پختونخوا سے 10 فی صد جب کہ وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں سے آٹھ فی صد موصول ہوئیں۔
'فریڈم نیٹ ورک' نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ گزشتہ سال پاکستان کے مختلف شہروں میں پانچ صحافی اپنی ذمہ داریاں انجام دیتے ہوئے ہلاک ہوئے جب کہ صحافتی اداروں پر حملوں کی 20 شکایات بھی درج کرائی گئیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں ٹی وی کے لیے کام کرنے والے صحافیوں کو پرنٹ، سوشل میڈیا اور ریڈیو کے لیے کام کرنے والے اپنے ساتھیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ حملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
معروف پاکستانی تجزیہ کار اور سیاسیات کے استاد رسول بخش رئیس کا کہنا ہے کہ یہ حکومت اور میڈیا اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ صحافیوں کو تحفظ اور ان کے حقوق کی پاسداری یقینی بنائیں۔
انہوں نے کہا کہ قوم تک حقائق پہنچانے کے لیے فیلڈ میں جا کر رپورٹنگ کرنے والے افراد کو اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران قتل ہونے سے بچایا جانا چاہیے۔
رسول بخش رئیس اور کئی دوسرے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں صحافیوں کو لاحق خطرات نئے نہیں اور انہوں نے ہمیشہ ہی اپنے کام کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ آزادیٔ اظہار کو دبانے کے لیے کی جانے والی مسلسل کوششوں کے نتیجے میں اب بعض میڈیا ادارے اور صحافی خود ہی اپنے اوپر سینسر شپ عائد کرنے لگے ہیں۔
اقبال خٹک کہتے ہیں کہ پاکستانی صحافیوں نے جبرِ مسلسل کے آگے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور خود پر سینسر شپ نافذ کردی ہے۔ اب وہ ایسی خبروں اور حقائق کو رپورٹ کرنے سے گریز کرتے ہیں جن کے نتیجے میں انہیں تشدد کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
اقبال خٹک کے بقول اس صورتِ حال کے پاکستان میں تحقیقاتی صحافت پر بہت گہرے اور منفی اثرات پڑیں گے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کے مؤقر ادارے 'ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان' کے سربراہ اور تاریخ دان مہدی حسن بھی انہی خدشات کا شکار ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ملک میں کئی اخبارات اور نیوز چینلز 'سیلف سینسر شپ' پر عمل کر رہے ہیں جو ان کے بقول آزادیٔ اظہار کو کھا رہی ہے اور لوگوں کو معلومات تک رسائی کے ان کے حق سے محروم کر رہی ہے۔
مہدی حسن کہتے ہیں کہ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں صحافت کو ہمیشہ ریاستی اور غیر ریاستی حلقوں کے دباؤ کا سامنا رہا ہے۔
لیکن جہاں کئی تجزیہ کار اور ماہرینِ ابلاغ ملک میں 'سیلف سینسر شپ' کے بڑھتے ہوئے رجحان اور آزادیٔ اظہار کو دبانے کی کوششوں کے ناقد ہیں، وہیں بعض کا خیال ہے کہ پاکستانی صحافت کو اپنے داخلی مسائل کا بھی جائزہ لے کر ان کا حل تلاش کرنا چاہیے۔
اسلام آباد میں مقیم سینئر صحافی عامر الیاس رانا کہتے ہیں کہ وہ رپورٹ میں بیان کیے جانے والے حقائق سے متفق ہیں جو ان کے بقول پریشان کن اور دل گرفتگی کا باعث ہیں۔ صحافیوں کو ہر گز خوف کے ماحول میں نہیں جینا چاہیے، رپورٹنگ کے لیے جانے والوں کو مارا نہیں جانا چاہیے اور کسی بھی میڈیا گروپ کو خود پر سینسر شپ نافذ کرنے پر مجبور نہیں کیا جانا چاہیے۔
لیکن ان کے بقول وہ سمجھتے ہیں کہ پرائم ٹائم میں ٹی وی اسکرینوں پر قابض بہت سے نام نہاد صحافی کئی بار اپنی حد سے نکل جاتے ہیں اور انہیں پاکستان میں صحافت کی باریکیوں کا ادراک نہیں۔وہ پاکستان کے مختلف اہم اداروں کے خلاف بے بنیاد دعوے کرکے خود مصیبت کو دعوت دیتے ہیں۔
عامر الیاس رانا کہتے ہیں اظہارِ رائے کی ایسی بے محابا آزادی بھی قبول نہیں کی جاسکتی۔ ان کے بقول ایسا یورپ یا امریکہ بھی نہیں ہوتا۔
پاکستان میں جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف گزشتہ چند ماہ سے جاری پشتون قومیت سے تعلق رکھنے والوں کی ایک پرامن تحریک کے میڈیا بلیک آؤٹ پر بھی پاکستان کی حکومت اور ملک میں الیکٹرانک میڈیا کے ریگولیٹری ادارے 'پیمرا' کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
حال ہی میں پاکستان کے سب سے بڑے نیوز چینل 'جیو نیوز' کی ایک ماہ سے زائد عرصے تک بندش پر بھی انگلیاں حکومت کی جانب ہی اٹھ رہی ہیں۔
رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ پشتون تحفظ تحریک کے میڈیا بلیک آؤٹ اور جیو کی نشریات بند کرنے کے واقعات ہی بہت کچھ بتاتے ہیں۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان میں ایک غیر اعلانیہ سینسر شپ نافذ ہے اور ملک میں اظہارِ رائے کی آزادی دباؤ کا شکار ہے۔ ان کے بقول کوئی نہیں جانتا کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے۔
حکومت اور 'پیمرا' جیو نیوز کی نشریات بند کرنے کے معاملے میں ملوث ہونے کے الزام کی تردید کرتے ہیں۔ گزشتہ ماہ 'پیمرا' نے کیبل آپریٹرز کو 'جیو نیوز' کی نشریات معمول کے مطابق بحال کرنے کا حکم بھی دیا تھا اور خلاف ورزی پر ان کے لائسنس معطل کرنے کی دھمکی دی تھی۔