امریکہ میں آئندہ ماہ ہونے والے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹک امیدوار جو بائیڈن نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ میں کرونا وائرس کی تشخیص سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ عالمی وبا کے دوران عوام کے سامنے خود کو مضبوط ظاہر کرنے سے زیادہ اہم انہیں ماسک پہننے کی تلقین کرنا ہے۔
مشی گن میں اپنی صدارتی مہم کے دوران جمعے کو انہوں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کرونا وائرس سے متاثر ہونے کے متعلق بھی بات کی۔
اس سے قبل جو بائیڈن نے بھی دو مرتبہ کرونا وائرس کا ٹیسٹ کروا چکے ہیں۔ ان کے کرونا ٹیسٹ کے نتائج دونوں مرتبہ منفی آئے تھے۔
صدر ٹرمپ پر یہ تنقید کی جاتی ہے کہ انہوں نے عالمی وبا کے خطرے کی شدت کو کئی ماہ سے مسلسل گھٹا کر بتایا۔ انہوں نے اپنی مہم کے دوران مسلسل ماسک نہیں پہنا اور کئی بڑی ریلیوں میں بھی شرکت کی۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے کرونا وائرس سے متاثر ہونے سے عالمی وبا کے مسئلے کو ایک ایسے موقع پر مزید اہمیت مل رہی ہے جب کہ امریکہ کے صدارتی انتخابات میں محض چار ہفتے باقی رہ گئے ہیں۔
مشی گن میں گرینڈ ریپڈز کے یونین ہال میں جو بائیڈن نے اپنی گفتگو میں کہا کہ وہ اور ان کی اہلیہ جل بائیڈن صدر ٹرمپ اور میلانیا ٹرمپ کی صحت یابی کے لیے دعا گو ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے اپنی پوری تقریر ایک نیلے رنگ کا ماسک پہن کر کی۔ اس سے قبل وہ تقریر کا آغاز کرتے وقت ماسک اتار لیا کر لیتے تھے۔
جو بائیڈن نے کہا کہ یہ سیاست کی بات نہیں ہے۔ یہ ہم سب کے لیے یاد دہانی ہے کہ ہمیں اس وائرس کو بہت سنجیدہ لینا ہے۔ یہ خود بخود ختم نہیں ہو گا۔
جو بائیڈن نے امریکی عوام سے اپیل کی کہ وہ ماہرین کی جانب سے دی گئی ہدایات پر عمل کریں۔ جن میں ماسک پہننا، ہاتھ دھونا اور ایک دوسرے سے چھ فٹ کی دوری اختیار کرنا شامل ہے۔
طبی ماہرین نے، جن میں امریکی سرکاری ادارے سی ڈی سی کے سربراہ رابرٹ ریڈ فیلڈ بھی شامل ہیں، ایک بیان میں کہا تھا کہ وائرس کا پھیلاؤ گھٹانے میں ماسک کا کردار بہت اہم ہیں۔
اپنی تقریر میں جو بائیڈن نے مزید کہا کہ آپ محب وطن بنیں۔ اس کے لیے آپ کو سخت جان بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کو بس اپنے حصے کا فرض ادا کرنا ہے۔
منگل کو جو بائیڈن اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ہونے والے پہلے صدارتی مباحثے کے دوران صدر ٹرمپ نے جو بائیڈن کے ہمیشہ ماسک پہننے کے عمل کا مذاق اڑایا تھا۔
امریکہ دنیا میں کرونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے جہاں دو لاکھ سے زیادہ افراد اس موذی مرض کا لقمہ بن چکے ہیں، جب کہ متاثرین کی تعداد 75 لاکھ سے زیادہ ہے۔