'اب بھی وقت ہے خود کو اور اپنے ملک کو بچا لیں'

(فائل فوٹو)

عالمی ادارہ صحت نے یورپ کو کرونا وائرس کا مرکز قرار دے دیا ہے۔ لیکن یورپ میں بھی اٹلی اس وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ اٹلی میں کرونا وائرس کے باعث ہلاکتوں کی تعداد 1300 تک پہنچ چکی ہے جب کہ لگ بھگ 18 ہزار افراد میں وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے۔

اٹلی میں نظام زندگی مکمل طور پر مفلوج ہو چکا ہے۔ لوگ گھروں تک محدود ہیں جب کہ ریستوران اور پارکس بھی بند کر دیے گئے ہیں۔

اٹلی میں مقیم ایک خاتون عاصمہ انوار نے حالات کی سنگینی کو الفاظ میں منتقل کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر اپنے ایک پیغام میں اُنہوں نے باقی دُنیا کو خبردار کیا ہے کہ اگر اُنہوں نے اپنا طرز زندگی نہ بدلا تو اٹلی جیسی صورتِ حال سے وہ بھی دوچار ہو سکتے ہیں۔

عاصمہ کا کہنا ہے کہ وہ یہ پوسٹ اس لیے لکھ رہی ہیں کیوں کہ دُنیا کے بہت سے ملکوں کے پاس اب بھی موقع ہے کہ وہ اٹلی جیسی صورتِ حال سے بچ سکتے ہیں۔

اُن کا کہنا ہے کہ امریکہ اور یورپ کے دیگر ذرائع ابلاغ اب بھی اٹلی کی اصل صورتِ حال سامنے نہیں لا رہے۔ عاصمہ کے بقول نہ صرف حکومتوں، اسکولوں یا ایک انفرادی شخص ہر کسی کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ اس وائرس سے لڑ سکتا ہے۔

عاصمہ کے بقول اس وائرس کے خلاف اصل کامیابی اسے متعدی مرض بننے سے روکنا ہے۔ اور وہ اسی صورت ممکن ہے جب کروڑوں لوگ اپنا طرز زندگی بدلیں۔

اُنہوں نے خبردار کیا کہ "اگر آپ امریکہ یا یورپ میں رہتے ہیں تو یاد رکھیے آپ اٹلی جیسی صورتِ حال سے محض ہفتوں دُور ہیں۔ عاصمہ کہتی ہیں کہ "میں اب بھی سُن رہی ہوں کہ یہ صرف ہلکا پھلکا فلو ہے، جو صرف بزرگوں کو ہوتا ہے۔"

عاصمہ کہتی ہیں کہ دو وجوہات کی بناء پر اس وائرس نے اٹلی کے گھٹنے ٹیک دیے۔ ایک وجہ یہ تھی کہ بڑی تعداد میں لوگ فلو کا شکار ہوئے اور اُن کی حالت بگڑ گئی۔ لیکن اُنہیں آئی سی یو میں بروقت جگہ نہ مل سکی۔

دُوسری وجہ یہ تھی کہ 14 دن کے لیے ایسے مریضوں کو قرنطینہ میں رکھنا ضروری ہے۔ لیکن بہت سے مریضوں نے ایسی علامات ہی ظاہر نہیں کی تھیں کہ اُنہیں وہاں رکھا جاتا۔

عاصمہ کے بقول جب وزیر اعظم نے پورے ملک میں لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تو اُن کا یہ جملہ خاص طور پر مجھے یاد رہا کہ 'اب ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔' میرے نزدیک اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس متعدی مرض کا پھیلاؤ نہ روکا گیا تو اٹلی کا نظام زمین بوس ہو سکتا ہے۔

اٹلی میں چین کے بعد کرونا وائرس کے سب سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔

عاصمہ کہتی ہیں کہ آج اٹلی کے ایمرجنسی وارڈز بھرے ہوئے ہیں۔ عارضی بنیادوں پر اسپتال کی گزرگاہوں اور دیگر مقامات پر ایمرجنسی وارڈز قائم کیے جا رہے ہیں۔ اس وائرس کے تیزی سے پھیلاؤ سے خدشہ ہے کہ آنے والے چند دنوں میں مزید لوگوں کو انتہائی نگہداشت کی ضرورت ہو گی۔ اُس وقت کیا ہو گا کہ جب ایک سو یا ہزار افراد کو طبی امداد کی ضرورت ہو گی لیکن ایمرجنسی وارڈ دستیاب نہیں ہو گا۔

اُنہوں نے کہا کہ "میں نے ایک ڈاکٹر کا کالم پڑھا جس میں کہا گیا تھا کہ اب ہم مریض کی صحت دیکھ کر اندازہ کرتے ہیں کہ وہ بچ سکتا ہے یا نہیں۔ یہ وہی حالات جو جنگوں میں ہوتے ہیں۔"

عاصمہ کے بقول یہاں محدود تعداد میں ڈاکٹرز اور نرسز ہیں اور وہ خود بھی اس وائرس کا شکار ہو رہے ہیں۔ یہ طبی عملہ دن رات کام کر رہا ہے۔ میں یہ سوچتی ہوں کہ اُس وقت کیا ہو گا جب یہ طبی عملہ بھی حالات پر قابو نہیں پا سکے گا؟

اگر خدانخواستہ یہ ڈاکٹرز اور نرسز بھی نہ ہوئیں تو مریضوں کی دیکھ بھال کون کرے گا؟

اُن کے بقول وہ لوگ جو اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ صرف بزرگوں کو ہوتا ہے۔ تو اُن کو یہ بتا دوں کہ 18، 40 اور 45 سال کے مریض بھی علاج کے لیے آ رہے ہیں۔

عاصمہ کہتی ہیں کہ آپ کے پاس اب بھی وقت ہے۔ گھروں سے کام کو فروغ دیں۔ سالگرہ کی تقریبات منسوخ کر دیں۔ زیادہ سے زیادہ وقت گھر میں رہیں۔

جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اسکول بند کرنے سے کچھ نہیں ہو گا، تو وہ اٹلی کی صورتِ حال کو سامنے رکھیں، کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ سب ہو گا۔

اٹلی میں کرونا وائرس کے باعث نظام زندگی مفلوج ہو چکا ہے۔

'لوگ گھروں میں قید ہو کر رہ گئے ہیں'

اٹلی کے شہر بلونیا میں ایک پاکستانی عرفان ملک نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اُن کے علاقے میں مکمل لاک ڈاؤن ہے۔ سڑکیں سنسان ہیں۔ ایئرپورٹ، ٹرین اسٹیشنز بھی بند ہیں۔

حکومت کی جانب سے بغیر کسی جواز کے باہر نکلنے پر مکمل پابندی عائد ہے۔ مخصوص اوقات میں اسٹورز کھلتے ہیں۔ صبح آٹھ سے 10 بجے تک خریداری کا وقت متعین ہے۔

دو سے زائد لوگ بیک وقت کسی بھی اسٹور میں داخل نہیں ہو سکتے۔ اُنہیں بھی ہدایت ہے کہ 10 فٹ کا فاصلہ رکھیں۔ اسٹور میں رکھی چیزوں کو چھونے سے گریز کی ہدایات ہیں۔

چین کی جانب سے ادویات اور ضروری سامان اٹلی بھیجا گیا ہے۔

اسٹورز میں داخل ہونے سے قبل ماسک اور دستانے لازمی ہیں۔ اسکریننگ کا نظام بھی سخت ہے۔

عرفان کے بقول دو سے زائد لوگوں کے باہر نکلنے پر بھی پابندی ہے۔ اگر ضروری سفر کرنا ہو تو ڈرائیور کے ساتھ والی نشست کی بجائے دوسرا شخص پچھلی نشست پر بیٹھتا ہے۔

ان ہدایات کی خلاف ورزی یا پولیس کے ساتھ تکرار کرنے والوں کو 200 یورو تک جرمانہ کے علاوہ سزا بھی دی جا سکتی ہے۔

لوگوں گھروں میں قید ہو کر رہ گئے ہیں، زیادہ تر وقت ٹی وی دیکھنے میں صرف کرتے ہیں۔ عرفان کے بقول وہ گزشتہ 15 سال سے اٹلی میں مقیم ہیں، لیکن جو حالات وہ دیکھ رہے ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔

اٹلی میں کرونا وائرس کے باعث چین کے ڈاکٹروں پر مشتمل ٹیم بھی اٹلی پہنچی ہے۔ البتہ ملک میں کرونا وائرس کے کیسز کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔