|
امریکی ریاست کیلی فورنیا کے جنگلات میں ہونے والی تباہ کن آتشزدگی کی شدت گزشتہ چار دہائیوں کے دوران سب سے زیادہ بتائی جا رہی ہے۔
تاہم ماضی کے مقابلے میں اس بار یہ آگ اس لیے بھی غیر معمولی ہے کہ عام طور پر سال کے اس حصے میں کیلی فورنیا کے جنگلات میں آتشزدگی کے واقعات پیش نہیں آتے۔ لیکن آگ بھڑکنے اور تیزی سے پھیلنے کے دیگر عناصر جمع ہو جانے کی وجہ سے سال کے اس حصے میں بھی جنگل جل رہے ہیں۔
سب سے شمال مشرق خشک اور گرم ہوائیں چلنا شروع ہوئیں جنھیں سانتا اینا ونڈز کہا جاتا ہے۔ یہ ہوائیں معمول سے ہٹ کر ڈیڑھ سو کلومیٹر فی گھنٹہ سے زائد رفتار سے چلیں جس کی وجہ سے شدید خشک سالی ہو گئی۔
اس پر سوا یہ ہوا کہ گزشتہ دو موسمِ سرما میں نمی کی وجہ سے بڑے علاقے پر جو بے تحاشا خود رَو پودے اگ آئے تھے شدید گرمی میں وہ خشک ہو گئے یعنی بڑی مقدار میں ایندھن پہلے ہی وہاں موجود تھا۔ اس کے علاوہ یہاں سے کثیر تعداد میں بجلی کی لائنیں گزر رہی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ان سب عناصر سے مل کر بھڑکنے والی جنگل کی آگ تیزی سے پھیل کر شہروں تک پہنچی ہے۔
قاتل رفتار
یونی ورسٹی آف کولوراڈو کی فائر سائنٹسٹ جینیفر بالچ کا کہنا ہے کہ امریکہ کے مغربی خطے میں جنگلات کی آگ کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
گزشتہ برس اکتوبر میں شائع ہونے والے بالچ کے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق 2001 کے بعد سے آتشزدگی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور اب تک ایسے چھوٹے بڑے 60 ہزار واقعات ریکارڈ کیے گئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ جنگلات میں آتشزدگی کی سب سے بڑی وجہ گرم ہوتا ہوا موسم ہے جس کی وجہ سے جنگل میں لگنے والی آگ کو وافر ایندھن ملتا ہے۔
یو ایس جیولوجیکل سروے سے منسلک فائر سائنٹسٹ جون کیلے کا کہنا ہے کہ گرمیوں میں ہونے والی آتشزدگی شدید ہوتی ہے لیکن اس کا پھیلاؤ اتنا تیز نہیں ہوتا جتنا موسمِ سرما میں ہوتا ہے۔
SEE ALSO: لاس اینجلس میں لگنے والی آگ بے قابو، ہالی وڈ ہلز کو بھی لپیٹ میں لے لیاان کا کہنا ہے کہ موسمِ سرما میں لگنے والی آگ سے زیادہ نقصان ہوتا ہے کیوں کہ اس موسم میں آگ تیزی سے پھیلتی ہے۔
موسمیاتی خبریں اور اطلاعات فراہم کرنے والی نجی میڈیا کمپنی 'ایکو ویدر' کے مطابق کیلی فورنیا میں لگنے والی جنگلات کی آگ سے اب تک ہونے والے نقصانات کا تخمینہ لگ بھگ 57 ارب ڈالر ہے۔
کمپنی کے چیف میٹرولوجسٹ جوناتھن پورٹر کا کہنا ہے کہ آگ کی لپیٹ میں آنے والی عمارتوں اور مختلف ڈھانچوں کی تعداد دیکھی جائے تو یہ کیلی فورنیا کی تاریخ کی بدترین وائلڈ فائر ہے۔
آگ کے لیے سازگار ماحول
ویسٹرن ریجنل کلائمٹ سینٹر کے ڈائریکٹر ٹم براؤن کا کہنا ہے کہ کیلی فورنیا میں بھڑکنے والی آگ کے لیے حالات پہلے ہی ساز گار تھے۔
کینیڈا کی تھامسن ریورز یونی ورسٹی سے تعلق رکھنے والے فائر سائنٹسٹ مائیک فلینگن کے مطابق ہوا کی رفتار اور شعلوں کے پھیلاؤ کا آپس میں براہ راست تعلق ہے۔ جس تیزی سے ہوا چلتی ہے آگ کا پھیلاؤ بھی اسی رفتار سے ہوتا ہے۔
ان کے بقول اس لیے فائر فائٹنگ کے لیے زیادہ وقت نہیں ہوتا اور ماہرین کے مطابق ایسے حالات میں آگ کو روکنے کے لیے فائر فائٹرز کے پاس زیادہ سے زیادہ 15 منٹ کا وقت ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ دور ہونے پر تیر کمان سے نکل چکا ہوتا ہے۔
کیلی فورنیا انسٹی ٹیوٹ فور واٹر ریسورسز کے کلائمٹ سائنٹسٹ ڈینیئل سوین کا کہنا ہے کہ مشرق کی جانب سے پہاڑوں سے نیچے آنی ولی تیز ہواؤں سانتا اینا ونڈز کا انسانوں کے پیدا کی گئی ماحولیاتی تبدیلی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
تاہم ایک اور ماہر جوہن اباتزوگلو کا کہنا ہے کہ ایک اور صورتِ حال نے موجودہ صورتِ حال کو سنگین بنایا ہے۔
SEE ALSO: لاس اینجلس میں آتش زدگی سے 5 افراد ہلاک، کئی گھر تباہ، ہزاروں گھر چھوڑنے پر مجبوروہ کہتے ہیں کہ پوری دنیا میں موسمی ہواؤں کے ریلہ یا جیٹ اسٹریم امریکہ کے دو تہائی علاقوں میں سردی لے کر آتی ہے۔ تاہم موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ان ہواؤں کا درجہ حرارت بڑھ گیا۔
فائر سائنٹسٹ جون کیلے کا کہنا ہے کہ سانتا اینا ونڈز چلنے میں تاخیر ہو رہی ہے اور یہ اب خشک موسمِ خزاں سے قدرے نمی والے موسمِ سرما کی جانب منتقل ہو رہی ہے۔ عام حالات میں اس سے آگ کے خطرات کم ہوتے ہیں لیکن ہم جس دور میں ہیں وہ نارمل نہیں۔
کیلی فورنیا میں 1984 کے بعد سے جنگل کی آگ کے 423 ایسے واقعات کا جائزہ لیا گیا ہے جن سے 39 مربع کلو میٹر سے زائد علاقہ متاثر ہوا ہو۔ ایک جائزے کے مطابق ان میں سے صرف چار واقعات موسمِ سرما میں پیش آئے ہیں۔
آگ کا ایندھن
کلائمٹ سائنٹسٹ ڈینیئل سوین کے مطابق گزشتہ دو موسمِ سرما میں اس علاقے میں ہونے والی غیر معمولی نمی اور بارش کے باعث جنوبی کیلی فورنیا کے جنگلات اور نواحی علاقوں میں خود رو پودوں اور جڑی بوٹیوں کی تیزی سے افزائش ہوئی۔
ان کے بقول اس کے بعد ہونے والی خشک سالی نے ان پودوں کو سکھا کر ایندھن میں تبدیل کردیا۔
ان کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے خزاں میں خشکی بڑھ رہی ہے جو سردیوں کے لیے بہت سا ایندھن چھوڑ کر جاتی ہیں۔
SEE ALSO: جنگلات میں آتش زدگی: ’نقصان پورا ہونے میں ہزار سال لگ جائیں گے‘لوگوں کا پیدا کیا ہوا مسئلہ
فائر سائنٹسٹ جون کیلے کا کہنا ہے کہ جنگلات کی آگ میں انسانوں کے پیدا کردہ محرکات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
ان کا کہنا ہے کہ آبادی کی بڑھتی ہوئی ضروریات بھی ماحولیاتی اور دیگر اہم تغیرات کو جنم دیتی ہیں۔ کیلی فورنیا کو بھی بڑھتی آبادی کا سامنا ہے۔
کیلے کے بقول زیادہ آبادی کا مطلب ہے کہ بجلی کی سپلائی بڑھانے کے لیے زیادہ سے زیادہ اقدمات کیے جائیں۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہو گا کہ بجلی کی لائنیں بڑھائی جائیں اور انہیں سے جنگلات میں آگ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
محقیق اور سائنس دان مائیک فلینیگن کا کہنا ہے کہ کیلی فورنیا کے جنگلات میں آگ بھڑکنے کے اسباب کا ابھی تعین نہیں ہوا ہے لیکن ان کے بقول تیز ہواؤں کے باعث گرنے والی بجلی کی لائنز ہی اس کا سبب نکلیں گی۔
بجلی کی لائنز کی وجہ سے 2016 اور 2017 میں کیلی فورنیا میں تباہ کن جنگلات کی آگ بھڑکی تھی جس کے بعد پیسیفک گیس اینڈ الیکٹرک کمپنی کو 30 ارب ڈالر کا ہرجانہ کیا گیا تھا اور کمپنی دیوالیہ ہوگئی تھی۔
اس خبر کی معلومات 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہی۔