افغانستان کے صوبے ننگرہار میں فوجی کارروائی کے دوران مبینہ طور پر حراست میں لیے گئے دولت اسلامیہ (داعش) کے جنگجوؤں کے پاکستانی اہل خانہ کو رہا کر دیا گیا ہے۔
حکام کے مطابق، صوبہ ننگرہار میں بڑی تعداد میں داعش کے جنگجوؤں نے ہتھیار ڈال کر خود کو سیکیورٹی فورسز کے حوالے کر دیا تھا۔ ان کے سیکڑوں لواحقین جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے انہیں حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا تھا۔
البتہ، ان میں سے 130 پاکستانی خواتین اور بچوں کو قبائلی جرگے کے ذریعے قریبی عزیز و اقارب کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
ان خواتین اور بچوں کو قبائلی رہنماؤں جن میں آفریدی قبیلے کی ذیلی شاخ کوکی خیل سے تعلق رکھنے والے ملک صبور آفریدی اور ملک عصمت اللہ آفریدی شامل تھے کے حوالے کیا گیا۔
حوالگی کی تقریب میں افغانستان کے سرحدی صوبے ننگرہار کے گورنر شاہ محمود بھی شریک ہوئے۔ افغانستان کی جانب سے قبائلی جرگے کی قیادت ملک عثمان شنواری نے کی۔
ملک صبور آفریدی نے جلال آباد سے رابطے پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 50 خواتین اور 80 بچوں کو ان کے قریبی رشتہ داروں کی نشاندہی اور شاخت کے بعد افغان حکومت نے رہا کر کے جرگہ کے حوالے کیا، جن میں سے بیشتر کے عزیز و اقارب انہیں لینے جلال آباد پہنچے تھے۔
ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے ایک قبائلی رہنما نے بھی ان خواتین اور بچوں کی قبائلی رہنماؤں کے ذریعے رہا کرنے کی اطلاعات کی تصدیق کی ہے۔ مگر کہا ہے کہ ابھی تک ان لوگوں کو افغانستان سے پاکستان منتقل نہیں کیا گیا۔
افغان حکام کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ نومبر اور دسمبر میں افغان اور امریکی فورسز کی کارروائی کے دوران گرفتار ہونے والے متعدد داعش جنگجوؤں کا تعلق پاکستان کے قبائلی اضلاع سے بھی تھا۔
اورکزئی سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر صحافی حسن محمود نے تصدیق کی کہ خواتین اور بچوں کو قبائلی جرگہ کے ذریعے رہائی ملی ہے۔ مگر ان لوگوں کے قریبی رشتہ دار اور مقامی قبائلی رہنما بالکل خاموش ہیں۔ ان کے بقول، یا تو یہ لوگ ڈر رہے ہیں اور یا کسی مصلحت کے تحت خاموش ہیں۔
ننگرہار کے گورنر نے تقریب سے خطاب کے دوران بتایا کہ داعش کے خلاف کارروائی کے دوران ایسے 900 افراد کو حراست میں لیا گیا تھا۔ جن کا تعلق پاکستان سمیت دیگر ممالک سے ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغان حکام کی خواہش ہے کہ یہ خواتین اور بچے اپنے اپنے ملک جا کر پُرامن شہری بن جائیں۔
خیال رہے کہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے قریب واقع صوبہ ننگر ہار میں افغان حکومت نے گزشتہ سال نومبر میں داعش کا صفایا کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
گزشتہ چند برس کے دوران داعش نے افغانستان میں دہشت گردی کی متعدد کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ ان کارروائیوں میں نہ صرف امریکی اور افغان فورسز بلکہ افغان طالبان بھی داعش کے خلاف سرگرم رہے ہیں۔