رسائی کے لنکس

'افغانستان سے فوجی انخلا طالبان کے ساتھ امن معاہدے کا حصہ ہوگا'


امریکی وزیر دفاع مائیک ایسپر اتوار کے روز کابل پہنچے۔ ان کے دورے کو افغانستان میں امن کے قیام کے حوالے سے دیکھا جا رہا ہے۔ (فائل فوٹو)
امریکی وزیر دفاع مائیک ایسپر اتوار کے روز کابل پہنچے۔ ان کے دورے کو افغانستان میں امن کے قیام کے حوالے سے دیکھا جا رہا ہے۔ (فائل فوٹو)

امریکہ کے وزیر دفاع مارک ایسپر اتوار کے روز افغانستان پہنچے جہاں طالبان اور ٹرمپ انتظامیہ کے درمیان مذاکرات معطل ہونے کے بعد سے طالبان اور داعش کے ہلاکت خیز حملوں میں اضافے سے صورت حال پیچیدہ ہو گئی ہے۔

اس سے قبل امریکہ نے افغانستان سے 5000 ہزار سے زیادہ امریکی فوجی نکالنے کا اعلان کیا تھا۔

ایسپر نے اپنے ساتھ سفر کرنے والے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ان کا خیال ہے کہ امریکہ افغانستان سے اپنے 8600 فوجی نکال سکتا ہے اور اس انخلا سے دہشت گردی، القاعدہ اور داعش کے خلاف جنگ کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔

لیکن اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغانستان سے کوئی بھی فوجی انخلا طالبان کے ساتھ امن معاہدے کا ایک حصہ ہوگا۔

افغانستان میں اس وقت تقریباً 14000 امریکی فوجی موجود ہیں جو امریکی قیادت کے اتحاد کا حصہ ہیں۔ امریکی فورسز افغان فوجیوں کی تربیت اور مشاورت کا کام کر رہی ہیں اور انتہاپسندی کے خلاف کارروائیوں میں ان کی مدد کر رہی ہیں۔

صدر ٹرمپ نے امن مذاکرات سے تعلق کے سلسلے میں اپنے کچھ فوجی دستے نکالنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد افغانستان میں تقریباً 8600 امریکی فوجی باقی رہ جائیں گے۔

اس سے قبل امریکہ کے افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے طالبان کے ساتھ امن معاہدہ طے کرنے کے لیے مذاکرات کے کئی دور کیے اور حتمی معاہدے پر دستخطوں کے لیے ٹرمپ نے کیمپ ڈیوڈ میں طالبان کے ساتھ ایک خصوصی اور خفیہ میٹنگ رکھی تھی، جسے آخری لمحات میں افغانستان میں طالبان کے بڑھتے ہوئے ہلاکت خیز حملوں اور ایک امریکی فوجی کی ہلاکت کے بعد اچانک منسوخ کر دیا گیا تھا اور صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ اب یہ معاہدہ 'مردہ' ہو چکا ہے۔

تاہم ایسپر کا کہنا تھا کہ اب بھی مقصد یہی ہے کہ کسی موقع پر امن معاہدہ کیا جائے کیا۔ آگے بڑھنے کا یہی ایک بہتر طریقہ ہے۔

امن مذاکرات کا سلسلہ منقطع ہونے کے ایک ماہ بعد زلمے خلیل زاد نے اکتوبر کے شروع میں اسلام آباد میں طالبان کے نمائندوں سے ملاقات کی تھی، لیکن اس کے نتیجے کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔

ایسپر ایک ایسے وقت کابل پہنچے ہیں جب وہاں صدارتی انتخابات ہو چکے ہیں جن کے نتائج کا ابھی تک اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ صدر اشرف غنی اور ان کے سیاسی حریف عبداللہ عبداللہ دونوں کا یہ دعویٰ ہے کہ جیت انہی کی ہو گی۔

امریکی وزیر دفاع کا مزید کہنا ہے کہ وہ صدر اشرف غنی اور افغانستان میں تعینات اعلیٰ امریکی فوجی عہدے داروں سے بھی ملاقات کریں گے۔

XS
SM
MD
LG