پاکستان ایک طویل عرصے سے معاشی مسائل کا شکار ہے۔ موجودہ اور گزشتہ حکومتوں کے دعوؤں اور وعدوں کے باوجود بھی گزرتے وقت کے ساتھ مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ روپے کی قدر میں کمی آئی ہے جب کہ مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے۔
مبصرین کے مطابق پاکستان میں بے روزگاری کی شرح بھی ملکی تاریخ کی بلند سطح پر ہے۔ جب کہ خطِ غربت سے نیچے رہنے والے افراد کی تعداد آبادی کے 38 فی صد کے برابر بتائی جاتی ہے۔
حکومتی اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ گزشتہ دو برس کے دوران پاکستان کا بجٹ خسارہ اس کی مجموعی ملکی پیداوار یعنی جی ڈی پی کے سات سے نو فی صد کے درمیان رہا ہے۔ اسی طرح جی ڈی پی کے مقابلے میں ٹیکس ادا کرنے کی شرح میں بھی کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ ملکی آمدن سے قرضوں کی ادائیگی میں تیزی دیکھی جا رہی ہے اور ترقیاتی اخراجات میں تیزی سے کمی کی گئی ہے۔
ایسی صورت حال میں کئی بار یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملک کی سیاسی جماعتوں، اداروں اور طبقات کو تمام اختلاف کو بالائے طاق رکھ کر معیشت پر اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں وزیرِ خزانہ شوکت ترین، قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف طویل مدت معاشی پالیسی بنانے اور اس پر عمل کرنے کے لیے آواز اٹھا چکے ہیں۔
ملک کی اسی صورتِ حال کے تناظر میں سابق وزیرِخزانہ، ماہر معیشت ڈاکٹر حفیظ پاشا کی ایک کتاب ’دی چارٹر آف دی اکانومی- ایجنڈا فار اکنامک ریفارمز ان پاکستان‘ سامنے آئی ہے۔
جرمن ادارے فیڈرک ای برٹ اسٹفنگ (ایف ای ایس) پاکستان کے تعاون سے چھپنے والی اس کتاب کے مصنف کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتِ حال سے نکلنے کے لیے سیاسی اتفاق رائے اور سول سوسائٹی کی حمایت سے ملک میں معیشت کی بہتری کے لیے چارٹر آف اکانومی کی ضرورت ہے۔
ان کے خیال میں ایسے چارٹر میں اصلاحات کی نشاندہی کی جائے۔ معاشی ترقی کے لیے پالیسیاں بنائی جائیں جس سے عدم مساوات کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔ روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔ غربت ختم اور خوراک کے تحفظ کی صورتِ حال میں بہتری کے ساتھ انسانی ترقی کو فروغ دیا جاسکے۔
میثاقِ معیشت کتاب میں ہے کیا؟
ڈاکٹر حفیظ پاشا کے خیال میں ان کے تیارہ کردہ چارٹر آف اکانومی کے بنیادی طور پر دو حصے ہیں جن میں پہلا گورننس یعنی حکمرانی کو بہتر بنانے اور دوسرا پالیسی کی تیاری اور ان پر عمل درآمد سے متعلق ہے۔
ماہر معیشت کے مطابق اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی، خدمات کی فراہمی ممکن بنانے، مارکیٹ کو ریگولیٹ کرنے اور کاروبار کرنے میں آسانیوں سے معیشت مستحکم کی جاسکتی ہے۔ جس سے حکومتی قرض کم اور بیرونی زرِمبادلے کے ذخائر بڑھ سکتے ہیں۔
ان کے بقول بہتر مالی، مانیٹری، تجارتی اور دیگر پالیسیوں کو ترتیب دینے اور ان پر عمل درآمد سے معیشت کی نمو میں تیزی دیکھی جائے گی۔
مذکورہ چارٹر میں پاکستان کی معیشت کو موجودہ صورتِ حال سے نکالنے کے لیے آئندہ چار سالمیں کئی اہداف مقرر کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ جن میں قومی ترقی کی شرح 3.9 فی صد سے بڑھا کر چھ فی صد تک لانے، جی ڈی پی کے 17 فی صد کے برابر سرمایہ کاری کی سطح، بے روز گاری کی شرح 13 سے چھ فی صد پر لانے اور اسی طح مہنگائی کی شرح کو بھی کم کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے۔
اس کے علاوہ محصولات میں اضافے، اخراجات کو کنٹرول کرنے، تجارتی خسارے کو کم کرنے سمیت حکومتی قرضوں کی شرح کو کم کرنے کے لیے بھی اہداف کو چارٹر کا حصہ بنایا گیا ہے۔
سفارشات کے دوسرے حصے میں نہ صرف حکومتی کارکردگی بہتر بنانے پر زور دیا ہے بلکہ بڑے عوامی طبقے کے مفادات کے تحفظ، قومی خود مختاری، مالی نظم و ضبط، پالیسیوں میں تسلسل اور خدمات کی مؤثر ترسیل ممکن بنانے کا بھی کہا گیا ہے۔
میثاقِ معیشت میں پیش کردہ سفارشات کیا کہتی ہیں؟
چارٹر میں پیش کی گئی مختلف سفارشات کے مطابق ایسے منصوبے بنائے جائیں جو وفاق کے منصوبوں سے مطابقت رکھتے ہوں جب کہ علاقائی ترقی کے منصوبوں کی تیاری صوبوں کا کام ہونا چاہیے۔
معاشی چارٹر کی سفارشات کے مطابق حکومت کو شفافیت لانے کے لیے معاشی انفارمیشن سسٹم اور شماریات میں بہتری لانی ہو گی۔ ہر شعبے کے جی ڈی پی کا سہ ماہی اور ہر صوبے کے جی ڈی پی کا سالانہ تخمینہ لگایا جائے۔ ادارۂ شماریات کی خود مختاری کو یقینی بنانے کے ساتھ ادارے کی تیکنیکی صلاحیت کو بڑھانا ہو گا۔
'مالی نظام میں شفافیت اور ڈیجیٹلائزیشن وقت کی ضرورت ہے'
ملک کے مالی نظام میں شفافیت اور اسے قابل مواخذہ بنانے کے لیے بھی اصلاحات کے نفاذ پر زور دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اس مقصد کے لیے قومی احتساب بیورو (نیب) کا ایک غیرجانب دار ادارہ ہونے کا تاثر بڑھانے کی ضرورت ہے۔
SEE ALSO: تیل کی قیمتوں میں عالمی سطح پر دگنا اضافہ؛ ’پاکستان میں لوگوں کی قوتِ خرید کم ہے‘اسی طرح چارٹر کے مطابق رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2010 کے تحت انفارمیشن کمیشن کے قیام کی ضرورت ہے جو معلومات تک رسائی بالخصوص حکومت کی جانب سے رقوم کی منتقلی سے متعلق معلومات میں عوام کی مدد کرے۔
چارٹر میں اسٹیٹ بینک، نیپرا، ایس ای سی پی، مسابقتی کمیشن وغیرہ کو مضبوط بنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ کاروبار سہل بنانے کے لیے معیشت کو ڈیجیٹل بنانے کے لیے ٹیکس، نان ٹیکس اور توانائی کے ٹیرف، بولیوں کے عمل کو ڈیجیٹلائز کرنے کے ساتھ لینڈ ریکارڈ کو بھی کمپیوٹرائزڈ کرنے کی ضرورت ہے۔
'اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی ضروری ہے'
میثاق معیشت میں کہا گیا ہے کہ وفاق کو مضبوط بنانے کے لیے 18 ویں ترمیم پر مکمل عملدرآمد ضروری ہے۔ اسی طرح مقامی حکومتوں کے نظام کو سیاسی، انتظامی اور معاشی اختیارات اور ذمہ دارایاں دے کر انہیں مضبوط کیا جانا ضروری ہے۔
اس کتاب میں کہا گیا ہے کہ ملک میں آمدنی اور دولت کی عدم مساوات کی بنا پر ٹیکس نظام میں اصلاحات اب ناگزیر ہو چکی ہیں۔
ملک کے امیر طبقے کو لگ بھگ ایک ہزار 275 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ اور استثنیٰ حاصل ہے۔ جو مجموعی ملکی آمدن کا 2.7 فی صد بنتا ہے۔ اسی طرح 16 فی صد رہائشی پراپرٹی اور 22 فی صد زرعی زمین محض ایک فی صد طبقے کے پاس ہے۔
چارٹر کے مطابق تعلیم پر مجموعی قومی آمدن کا کم از کم 2.5 فی صد تک خرچ بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ملک میں بے روزگاری کی شرح تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔ ایسے افراد کو تیکنیکی اور ہنر مندی کی تربیت دینے کے ساتھ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تعلیم کے حصول کی جانب راغب کرنے کی ضرورت ہے۔
'میثاقِ جمہوریت پر عملدرآمد مشکل ہے'
ملک کے چوٹی کے ماہر معیشت سمجھے جانے والے ڈاکٹر قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر پاشا نے اپنی کتاب میں معیشت کے تقریباً تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ایسے کسی میثاق پر عمل درآمد مشکل ہے۔
ان کے بقول اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک میں بالادست طبقے اور اشرافیہ کو موجودہ نظام فائدہ پہنچا رہا ہے۔ ان کو ایسے معاشی نظام میں اصلاحات لانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہو گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
ڈاکٹر قیصر کے مطابق حکومت، اداروں میں بھی ایسے افراد موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ایسے زمین دار اور کاروباری افراد بھی ہیں،جن کا فائدہ موجودہ نظام کی بقا میں ہی ہے۔ ایسے میں وہ کیوں چاہیں گے کہ اس معاشی نظام میں تبدیلیاں لائی جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے بات تو ہو رہی ہے لیکن فی الحال یہ ممکن نہیں لگا۔ انہوں نے مثال دی کہ ملک میں 90 فی صد شوگر انڈسٹری بند کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ وہ کئی حوالوں سے ملکی معیشت کو شدید نقصان سے دوچار کر رہی ہے۔ لیکن جو لوگ اس صنعت میں ہیں وہ انتہائی بااختیار، طاقت ور اور بااثر ہیں اور ظاہر ہے کہ وہ کبھی یہ نہیں ہونے دیں گے۔
قیصر بنگالی کے خیال میں نوجوان تیزی سے موجودہ معاشی نظام سے مایوس ہو رہے ہیں کیوں کہ اس نظام کے تحت انہیں استحصال اور نا انصافی کا سامنا ہے۔
ان کے بقول اس وقت ملک کے معاشی نظام میں اصلاحات کے نفاذ کے لیے کوئی منظم آواز موجود نہیں جو لوگوں کو متحرک کرے۔ ان کے خیال میں یہی مایوس نوجوان کسی منظم سیاسی تحریک کی غیرموجودگی میں ملک میں انتہا پسندی، دہشت گردی اور دیگر معاشی برائیوں کی ایندھن بن رہا ہے۔