بھارت میں ملک کا نام تبدیل کرنے کی نئی بحث ایسے وقت میں شروع ہو گئی ہے جب وہ جی ٹوئنٹی ممالک کے سربراہان کے اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق بھارت کی صدر دروپدی مرمو نے آئندہ ہفتے کے دن غیر ملکی رہنماؤں کو عشائیے پر مدعو کیا ہے۔ ان میں امریکہ کے صدر جو بائیڈن اور برطانیہ کے وزیرِ اعظم رشی سونک سمیت کئی عالمی رہنما شامل ہیں۔
اس عشائیے کے لیے جاری کیے گئے انگریزی میں دعوت نامے میں ’دی پریزیڈنٹ آف بھارت‘ لکھا گیا جب کہ عمومی طور پر سرکاری دعوت ناموں میں ’پریزیڈنٹ آف انڈیا‘ کا استعمال ہوتا ہے۔
یہ دعوت نامہ سامنے آنے کے بعد اس پر ملک کی ہر سیاسی جماعت کے رہنما تبصروں میں مصروف ہیں۔
بھارت کے مرکزی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی راجیو چندرشیکر کا کہنا تھا کہ کانگریس کو ہر معاملے پر تشویش ہوتی ہے۔ ان کو تشویش ہوتی ہے تو ہوتی رہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ ایک بھارت واسی یعنی بھارت کے رہنے والے ہیں۔ ان کے ملک کا نام پہلے بھی بھارت تھا اور آج بھی بھارت ہے اور کل بھی یہی رہے گا۔
کانگریس سے تعلق رکھنے والے ریاست کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سدارامایا کا کہنا تھا کہ ملک کے آئین میں اس کا نام انڈیا رکھا گیا ہے۔ اس کو پوری دنیا نے بھی تسلیم کیا ہے۔
ان کے بقول ملک کا نام تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
دوسری جانب حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے تعلق رکھنے والے رکنِ پارلیمان نریش بنسل نے کہا ہے کہ بھارت ملک کا قدیم نام ہے جس کا ذکر قدیم مذہبی کتابوں میں بھی موجود ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس ملک کو دو یا تین سو برس قبل انگریزوں نے انڈیا کا نام دیا تھا جو غلامی کی جانب اشارہ کرنے والا نام ہے۔
انہوں نے کہا کہ غلامی کی اس ذہنیت سے چھٹکارا پانا چاہیے۔ اس کا اعلان گزشتہ برس وزیرِ اعظم نریندر مودی نے بھی کیا تھا کہ ہمیں غلامی کی نشانیوں سے چھٹکارا پانا ہے۔
ریاست مغربی بنگال کی وزیرِ اعلیٰ اور آل انڈیا ترینامول کانگریس کی رہنما ممتا بنرجی نے اس حوالے سے کہا ہے کہ مرکزی حکومت نے صدر کی جانب سے ارسال کیے گئے دعوت نامے میں انگریزی میں ملک کا نام بھارت لکھا گیا ہے۔ جب کہ ہم انگریزی میں انڈیا کہتے ہیں جیسے انڈین کانسٹیٹیوشن انگریزی اور ہندی میں بھارت کا سمودھان (آئین) کہا جاتا ہے۔
انہوں نے بی جی پی کی مرکزی حکومت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے یہ سوال بھی اٹھایا کہ اچانک ایسا کیا ہو گیا ہے کہ یہ ملک کا نام تبدیل کرنا چاہتے ہیں؟
حزبِ اختلاف کی جماعت کانگریس کے مرکزی رہنما پون کھیڑا نے ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ نریندر مودی کو اب انڈیا نام سے پرابلم ہو گئی ہے اور ملک کا نام بدل رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پوری دنیا ان پر ہنس رہی ہے۔ ان کے بقول تفریح اچھی چیز ہے۔ لیکن جی ٹوئنٹی اجلاس کے وقت تفریح کا ذمہ خود نریندر مودی نے اپنے ذمے لے لیا ہے۔ یہ اچھا نہیں لگا۔
دہلی کے وزیرِ اعلیٰ اورعام آدمی پارٹی کے سربراہ ارویند کیجری وال نے بھی اس معاملے پر تنقید کی ہے۔
ایک پریس کانفرنس میں ملک کا نام تبدیل کیے جانے کی اطلات پر ارویند کیجری وال کا کہنا تھا کہ ایسا اس لیے کیا جا رہا ہے کیوں کہ کئی جماعتوں کا ایک اتحاد بنا ہے جس کا نام انڈیا رکھا گیا ہے۔
انہوں نے حکمران بی جے پی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر سیاسی جماعتوں کا انڈیا کے نام سے اتحاد بن جاتا ہے تو کیا وہ ملک کا نام تبدیل کر دیں گے۔ بھارت ایک ارب 40 کروڑ لوگوں کا ملک ہے، کسی ایک جماعت کا ملک نہیں ہے۔
ان کے مطابق کل اگر ان سیاسی جماعتوں کے اتحاد نے اپنا نام بدل کر بھارت رکھا لیا تو کیا اس کو بھی تبدیل کر دیں گے اور بھارت کا نام بی جے پی رکھ دیں گے۔ یہ کیا مذاق ہے۔
واضح رہے کہ دو ماہ قبل بھارت کی 26 سیاسی جماعتوں نے 2024 کےعام انتخابات کے لیے 'انڈیا' کے نام سے اتحاد بنانے کا اعلان کیا ہے۔
بھارت کے شہر بنگلورو میں بھارتی اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کانگریس کے صدر ملک ارجن کھرگے نے اتحاد کی تشکیل کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس اتحاد کا بنیادی مقصد مل کر بھارت میں جمہوریت اور آئین کا تحفظ کرنا ہے۔
انڈین نیشنل ڈیولپمنٹ انکلوسیو الائنس کے نام سے بنائے گئے اس اتحاد کا مخفف'انڈیا 'ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کے انڈیا کے نام سے اتحاد بنانے کو بھارت میں وزیرِاعظم نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے قوم پرستانہ ایجنڈے کے مقابلے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔
اانڈیا کے نام سے بنے والے اتحاد میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت انڈین نیشنل کانگریس، آل انڈیا ترنمول کانگریس، عام آدمی پارٹی، راشٹریہ جنتا دل، جنتا دل، سماج وادی پارٹی سمیت قومی اور علاقائی جماعتیں شامل ہیں۔
ریاست آسام کے وزیرِ اعلیٰ اور بی جے پی کے رہنما ہمانتا بسوا سرما کا کہنا تھا کہ ’جمہوریہ بھارت‘ ، وہ خوش ہیں اور انہیں فخر ہے کہ ان کی تہذیب ترقی کی جانب بڑھ رہی ہے۔
ملک کا نام تبدیل ہونے کے حوالے سے بھارت کے مرکزی وزیر برائے تعلیم اور بی جے پی کے رہنما دھرمیندر پردھان نے کہا ہے کہ یہ بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے جب صدارتی دعوت نامہ دیکھا تو ان کے من کو بہت اطمینان ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ اب غلامی کی ذہنیت سے باہر آنا ہے۔ اس کے لیے یہ سب سے بڑا پیغام ہے۔
حزبِ اختلاف کی جماعت کانگریس کے رہنما ششی تھرور نے ایک بیان میں کہا کہ انڈیا کو بھارت پکارنے میں کوئی آئینی قدغن نہیں ہے۔
انہوں نے صدر کا ارسال کیا گیا دعوت نامہ بھی سوشل میڈیا پر شیئر کیا اور کہا کہ بھارت ملک کے دو سرکاری ناموں میں سے ایک ہے۔
ششی تھرور کے مطابق امید ہے کہ بھارت کی حکومت ’انڈیا‘ نام مکمل طور پر ترک کرنے کا بے وقوفانہ اقدام نہیں کرے گی۔
واضح رہے کہ بھارت کے آئین کے آرٹیکل نمبر ایک میں تحریر ہے کہ انڈیا، جو کہ بھارت ہے وہ کئی ریاستوں کا اتحاد ہے۔
نشریاتی ادارے ’این ڈی ٹی وی‘ کی رپورٹ کے مطابق جی ٹوئنٹی اجلاس کے تعارف کے لیے چھاپے گئے کتابچوں پر بھی انگریزی میں ’بھارت، جمہوریت کی ماں‘ تحریر کیا گیا۔
خیال رہے کہ صدر کی جانب سے غیر ملکی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ ریاستوں کے وزرا کو بھی عشائیے میں مدعو کیا گیا ہے۔
صدر کا دعوت نامہ آنے سے دو دن قبل راشٹریہ سوائم سیوک سنگ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھگوت نے ایک خطاب کیا تھا۔
ان کے خطاب کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں ان کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ اب ہمیں انڈیا کے بجائے بھارت لفظ کا استعمال کرنا چاہیے۔
وہ خطاب میں کہتے ہیں کہ کبھی کبھی انگریزی جاننے والوں کے سامنے انڈیا بولنا پڑتا ہے تاکہ ان کو سمجھ آئے۔ زبان کی وجہ سے ایسا کرنا پڑ جاتا ہے۔ لیکن اب ایسا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔