اسلامک اسٹیٹ کے عسکریت پسندوں میں مایوسی بڑھ رہی ہے

ابراہیم اپنے خاندان کے ساتھ موصل سے فرار ہو کر حسن شام کے کیمپ میں پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ 7 دسمبر 2016

اقی فورسز موصل کے قریب پہنچ گئیں تو داعش والوں نے کہا کہ اگر انہیں کسی کے پاس سے موبائل فون ملا اور اگر اس نے اپنی داڑھی  منڈوائی تو وہ اس کی گردن اڑا دیں گے۔

موصل کے ان مضافاتی علاقوں میں جن پر اسلامک اسٹیٹ کا قبضہ ہے، آذان کی آوازیں واضح سنائی دیتی ہیں۔

لیکن وہاں رہنے والے بہت سے لوگوں کا کہنا ہے اسلامک اسٹیٹ کے عسکریت پسندوں میں مایوسی اور بددلی بڑھ رہی ہے۔

ابراہیم نے بتایا کہ وہ شہر پر اسلامک اسٹیٹ کے قبضے سے پہلے کاشت کاری کرتے تھے ۔ وہ کہتے ہیں اسلامک اسٹیٹ کے لوگ مسجد کا لاؤڈ اسپیکر لوگوں کو یہ بتانے کے لیے استعمال کرتے ہیں کہ اگر کوئی شہر سے بھاگنے کی کوشش کرے گا تو وہ اسے قتل کر دیں گے۔

پناہ گزینوں کے حسن شام کیمپ کا موصل سے فاصلہ تقریباً 25 کلو میٹر ہے۔ امدادی کارکنوں کے مطابق وہاں 40 سے 250 تک خاندان وہاں ہر روز پہنچ رہے ہیں۔ اور ان کے پاس بہت سی کہانیاں ہیں۔

تارکین وطن سے متعلق عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ اکتوبر کے وسط سے موصل کو اسلامک اسٹیٹ سے خالی کرانے کے لیے شروع کی جانے والی کارروائی کے بعد سے اب تک 84 ہزار کے لگ بھگ افراد اپنے گھر بار چھوڑ کر جا چکے ہیں۔

پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے عسکریت پسندوں کو شکست ہو رہی ہے، بہت سے خاندانوں کو بھاگنے کا موقع نہیں مل رہا۔ کیونکہ عسکریت پسندوں انہیں دھمکیاں دیتے ہیں اور انہیں واپس اپنے گھروں میں جانے پر مجبور کرتے ہیں۔

رعد جو اسلامک اسٹیٹ کے قبضے سے پہلے وہاں ٹیکسی چلاتے تھے۔ بتاتے ہیں کہ عسکریت پسند ایک ایک گھر کے دروازے پر جا کر یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر کسی نے بھاگنے کی کوشش کی تو اسے گولی مار دی جائے گی۔

اسلامک اسٹیٹ کے قانون کے تحت موبائل فون سننے پر سخت پابندی ہے۔ مردوں کے لیے ایک خاص انداز کی داڑھی رکھنا ضروری ہے۔

رعد نے بتایا کہ جب عراقی فورسز موصل کے قریب پہنچ گئیں تو داعش والوں نے کہا کہ اگر انہیں کسی کے پاس سے موبائل فون ملا اور اگر اس نے اپنی داڑھی منڈوائی تو وہ اس کی گردن اڑا دیں گے۔

رعد کی طرح زیادہ تر لوگوں اس وقت تک اپنے موبائل فون استعمال نہیں کیے اور اپنی داڑھیاں نہیں منڈائیں جب تک وہ ان کے کنٹرول کے علاقوں سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔

اسلامک اسٹیٹ کے شہر پر قبضے سے پہلے جو لوگ پولیس میں ملازم تھے، ان کے بارے میں علی أبو محمد کہتے ہیں کہ داعش والوں نے بہت سوں کے گلے کاٹ دیے اور کئی دوسروں کی جان بخشی یہ حلف اٹھانے پر ہوئی کہ وہ اچھے مسلمان بن کر رہیں گے۔

لیکن پچھلے ہفتے جیسے ہی عراقی فوج شہر کے مضافات میں پہنچی، عسکریت پسند اپنے عہد سے منحرف ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ وہ پولیس کے سابق اہل کاروں کو قتل کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ کیونکہ وہ ان سے خطرہ محسوس کررہے تھے۔ جیسا کہ انہیں موبائل فون رکھنے والوں سے خدشہ تھا کہ وہ عراقی فوج کو خفیہ معلومات فراہم کریں گے۔