اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ موصل میں 54000سے زائد افراد بے دخل ہوچکےہیں، جہاں شہر کو داعش کے شدت پسندوں سے خالی کرانے کے لیے بڑے پیمانے پر عراقی فوجی کارروائی جاری ہے۔
اقوام متحدہ کے ترجمان، فرحان حق نے پیر ہے روز بتایا کہ نقل مکانی کرنے والے افراد کی تعداد جمعے کے روز کے بعد سے بڑھ کر6600 ہوگئی ہے، جن میں زیادہ تر بے گھر افراد کی کیمپوں کی جانب بھاگ نکلے ہیں۔
عراقی خصوصی افواج نے کہا ہے کہ خیموں کے اندر آنے کی اجازت دینے سے پہلے وہ بے دخل ہونے والوں کی تلاشی لے رہے ہیں، تاکہ وہ لوگ جن کے داعش کے ساتھ تعلق کا شبہ ہو اُنھیں داخل نہ ہونے دیا جائے۔
اُنھوں نے کہا ہے کہ اُنھوں نے موصل کے قدسیہ اور زہرہ کے مضافات سے بھی ان عناصر کا صفایا کر دیا ہے۔
عراقی فوجیں جنھیں امریکی قیادت والے اتحاد کے فضائی حملوں کی مدد حاصل ہے، وہ شہر سے آہستہ آہستہ باہر نکل رہی ہیں، تاکہ مسلح افواج اور سولین آبادی کی ہلاکتوں سے بچا جا سکے، ایسے میں جب داعش کے شدت پسند خودکش بم دھماکے کر رہے ہیں۔
امریکی وزیر دفاع ایش کارٹر نے پیر کو واشنگٹن میں ایٹلانٹک مگزین اور 1776 گلوبل بزنیس کے ایک مذاکرے میں بتایا ہے کہ موصل اور رقہ کے عراقی شہر داعش کے دو مرکزی گڑھ ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ ’’اِنہیں تباہ کرنا ہوگا۔ ہماری ابتدائی حکمت عملی یہی تھی کہ اِن دونوں شہروں میں افواج کو تعینات کرکے دولت اسلامیہ کو شہر کے اندر ہی نیست و نابود کر دیا جائے‘‘۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ ’’اس بات کو اب ایک برس ہوچلا ہے، اور ہم نے عراقی افواج اور پیشمرگہ کے ساتھ مل کر اس بات کی حکمتِ عملی تیار کی ہے‘‘۔