''موصل آزاد ہوجائے گا'۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو گولیوں کا نشانہ بنی ہوئی ایک عمارت کی دیوار پر عربی میں تحریر ہیں، ایسے میں جب داعش کے شدت پسندوں کے ہاتھوں قریب واقع تیل کے کنووں میں لگی ہوئی آگ سے سیاہ دھوئیں کے بادل اٹھ رہے ہیں۔
ایسے میں جب داعش کے خلاف لڑائی کا محاذ عراق کے دوسرے بڑے شہر کی جانب منتقل ہو رہا ہے، قرب و جوار کے علاقے جل رہے ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ داعش کے شدت پسند تو چلے گئے ہوں گے، لیکن یہاں کے مکینوں کو اب بھی دھویں کے باعث خطرے کا سامنا ہے۔
علی احمد کا گھر تیل کے دو کنووں کے درمیان واقع ہے، جن کا درمیانی فاصلہ چند سو میٹر کا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ''ہم آگ میں سانس لے رہے ہیں۔ یہاں پانی نہیں، ناہی خوراک میسر ہے۔ یہاں تک کہ لعاب تک خشک ہوچکا ہے، جس کا اُس کا رنگ بھی سیاہ ہو چکا ہے''۔
داعش کے شدت پسندوں نے دو مارہ قبل اس شہر میں تیل کے کنووں کو نذر آتش کیا تھا، جب وہ اس علاقے سے نکلنے پر مجبور ہوئے۔
جب وہ یہاں سے نکل رہے تھے تو فوجیوں نے بتایا ہے کہ اُنھوں نے بم نصب کر رکھے تھے، جن کے پھٹنے سے کنووں میں پھر سے آگ بھڑک اٹھی۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ آگ اِس لیے لگائی گئی تاکہ داعش کے شدت پسند فضائی کارروائی سے بچ سکیں۔ دوسروں کا کہنا ہے کہ گروپ بربادی پر اترا ہوا ہے۔ سبھی کہتے ہیں کہ یہ بحرانی صورت حال ہے جو حل ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔
القریہ کے ایک رہائشی، محمد، جو لگی ہوئی آگ سے زیادہ دور نہیں رہتے، کا کہنا ہے کہ ''اُنھوں نے بم حملہ کرکے تین ماہ قبل اِن کنووں کو تباہ کیا''۔
اُنھوں نے کہا کہ ''وہ ہمیں دھویں کے ذریعے تکلیف پہنچا رہے ہیں، جو ہمارے سینے میں جلن پیدا کر رہا ہے۔ تیل کے جلنے سے، پہلے ہی بہت سے لوگ بیمار پڑ چکے ہیں''۔