گزشتہ تین صدیوں سے بصرہ کی السراجی مسجد، جنوبی عراقی شہر بصرہ کی ایک منفرد علامت رہی ہے۔ جس کا اینٹوں سے بنا مینار اور نیلے رنگ کے سرامک ٹائیلوں سے مزین کنگرہ لوگوں کے لئے انتہائی جاذب نظررہاہے۔ تاہم منہدم صرف مینار کیا گیا ہے اور مسجد اس میں شامل نہیں ہے۔
حالیہ برسوں میں یہ بصرہ میں ان چند پرکشش علامات میں سے ایک ہے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنتی ہیں۔ تاہم تیل کی دولت سے مالامال یہ شہر بے توجہی کا شکار ہے،۔
حالیہ برسوں میں مقامی لوگوں کو یہ شکایت رہی ہے کہ مینار کی وجہ سے جو سڑک کے بیچ میں آگیا تھا اور اس سے ٹریفک میں رکاوٹ پڑتی تھی۔
جمعے کی صبح ہی صبح گیارہ میٹر تیتیس فٹ بلند اس مینار کو منہدم کرکے زمیں بوس کردیا گیا۔ بصرہ کے گورنر بذات خود اس موقع پر موجود تھے۔ اس کارروائی کے سبب سوشل میڈیا پر ان لوگوں کی جانب سے رد عمل کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا جو عراق کے ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے کی وکالت کرتے ہیں۔
SEE ALSO: عراق: مشتعل افراد کا سوئیڈن کے سفارت خانے پر دھاوا، عمارت کو آگ لگا دیعراقی سرزمین ،گزشتہ چھ ہزار برس سے زیادہ کے عرصے کے دوران متعدد تہذیبوں کا گہوارہ ر اور ایک مایہ ناز ثقافتی ورثہ کی مالک رہی ہے۔ لیکن دو ہزار تین میں امریکی حملے سے پہلے اور بعد میں عشروں کی لوٹ مار اور چیزوں کی توڑ پھوڑ کے سبب اس ثقافتی ورثے کو سخت نقصان پہنچا ہے۔ خاص طور پر جنگجواسلامک گروپ داعش نے اسے بہت نقصان پہنچایا ہے۔
گروپ نے شمالی عراق میں اسلام سے تعلق رکھنے والے مزارات سمیت کئی قدیمی مقامات کو منہدم کردیا، جس پر عراق اور بیرونی دنیا میں غم و غصے کا اظہار کیا گیا ۔ داعش
اور ایسے میں جب کہ حالیہ برسوں میں عراق میں نسبتا پر سکون رہا ہے۔ملک نے اپنے آثار قدیمہ کو بحال کرنا شروع کیا ہے۔ فن کے بہت سے مسروقہ نمونےعراق واپس آگئے ہیں۔
موصل شہر میں النوری مسجد جیسے قدیم مقامات کو جسے داعش نے تباہ کر دیا تھا، دوبارہ بنایا گیا ہے۔ عراق نے اس قسم کے کاموں میں مدد کے لئے انٹرنیشنل فنڈنگ کی اپیل بھی کی تھی۔
عراق کی القادسیہ یونیورسٹی میں آثار قدیمہ کے اسٹنٹ پروفیسر جعفرجوتھری کہتے ہیں کہ اس بار سرکاری حکام نے خود ہمارے ایک تاریخی ورثے کو ختم کیا ہے۔ یہ سراجی مسجد سترہ سو ستائیس میں تعمیر ہوئی تھی جس کا مینار منہدم کیا گیا ہے۔
SEE ALSO: یزیدی اقلیت پر مظالم کی عالمی تحقیقات میں ہالینڈ اور بیلجئیم بھی شامل
بصرہ کے گورنر اسد ال ایدانی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مقامی حکومت نے اس مینار کو گرانے کے لئے عراق کے سنی وقف آفس سے اجازت حاصل کی تھی ، جس کو اہل سنت کی مذہبی عمارات پر اختیار حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ پوری مسجد کو جدید اور بہتر ڈیزائن دیا جائے گا۔
بصرہ کے گورنر کے میڈیا آفس کے سرکاری فیس بک پیج پر پوسٹ کی گئی ایک وڈیو میں گورنر نے کہا کہ کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ یہ تاریخی تھی, لیکن یہ سڑک کے بیچ میں آگئی تھی۔ اور ہم نے عوام کے مفاد میں سڑک کو چوڑا کرنے کے لئے اسے توڑا ہے۔
گورنر آفس نے اس بارے میں اپنا موقف دینے کی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا۔
جعفر جوتھری کہتے ہیں کہ مینار اس سڑک کے وجود میں آنے سے پہلے تعمیر ہوا تھا۔ اور یہ بصرے کے قدیم ترین مقامات میں سے ایک تھا اور یہ سڑک میں تجاوز نہیں کر رہا تھا بلکہ انہوں نے اس میں تجاوز کیا ہے۔
(اس رپورٹ کے لئے مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔)