’فریقین عہد پورا نہیں کرتے تو ایران معاہدے سے قبل والی صورت حال اختیار کرے گا‘

فائل

ایران نے پیر کے روز دھمکی دی ہے کہ اگر جوہری معاہدے پر دستخط کرنے والے فریقین، یورپی ممالک اور امریکہ ایران کی معیشت کی مدد کرنے میں ناکام رہتے ہیں، تو وہ سال 2015ء کی سطح سے قبل والے جوہری ترقی کے پروگرام کی جانب پلٹ جائے گا، جس بین الاقوامی معاہدے کے تحت وہ ممانعت پر رضامند ہوا تھا۔

ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے، ارنا نے ایٹمی ایجنسی کے ترجمان، بہروز کمالوندی کے حوالے سے بتایا ہے کہ ’’اگر یورپی ممالک اور امریکی اپنے فرائض پورے نہیں کرنا چاہتے، تو ہم اپنے عزم میں کمی لائیں گے، اور چار برس قبل کی صورت حال کی جانب پلٹ جائیں گے‘‘۔

کمالوندی نے کہا ہے کہ ’’یہ اقدامات ضد کی بنا پر نہیں۔ اس کی وجہ سفارت کاری کو ایک موقع دینا ہے تاکہ دوسرا فریق سمجھ سے کام لے اور اپنے فرائض انجام دے‘‘۔

جب ایران اپنے جوہری پروگرام پر قدغن پر رضامند ہوا، بین الاقوامی معاہدے میں ایران کے خلاف تعزیرات میں نرمی کی گئی۔ لیکن، مئی 2018ء میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمجھوتے سے الگ ہوئے اور سزا کے طور پر اسلامی جمہوریہ کے خلاف دوبارہ تعزیرات لگا دی گئیں، جس کے نتیجے میں اس کی معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے اور اس کی تیل کی بین الاقوامی برآمدات میں کمی آگئی ہے۔

ایران نے یہ دلیل پیش کی ہے کہ امریکی تعزیرات کے اثرات میں کمی لانے کے لیے یورپ نے خاطر خواہ کام نہیں کیا۔

گذشتہ ماہ کے دوران، ایران یورینئم کے ذخیرے میں کمی لانے اور بھاری پانی کی سطح کو معاہدے میں دی گئی اجازت کی حد سے اوپر لے گیا ہے۔ معاہدے پر برطانیہ، فرانس، جرمنی اور یورپی یونین، چین اور روس نے بھی دستخط کیے تھے، سبھی معاہدے پر قائم ہیں، اور انھوں نے اس کی شقوں سے تجاوز پر ایران پر تنقید کی ہے۔

ایران کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ وہ معاہدے پر اسی سطح کی وفا کریں گے جتنی دستخط کرنے والے دیگر ملک کریں گے۔

برطانوی وزیر خارجہ جیرمی ہنٹ نے کہا ہے کہ معاہدہ ’’ابھی ختم نہیں ہوا‘‘، اور یہ کہ معاہدے سے متعلق جاری بحران کے تصفیے کا موقع ختم ہوتا جا رہا ہے، لیکن اب بھی اسے بحال رکھنا ممکن ہے۔

انھوں نے یہ بات برسلز میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کی بات چیت سے قبل کہی، جس میں وہ ایران کی صورت حال کو زیر غور لائیں گے۔