ایران نے دو ہفتے قبل تہران میں اپنے رشتے داروں سے ملنے کے لیے آنے والی اس کاروباری شخصیت کو گرفتار کر لیا ہے جس کے پاس ایران اور امریکہ کی دہری شہریت ہے۔
امریکی اخبار "وال اسٹریٹ جرنل" کے مطابق سیامک نمازی سیامک نمازی دبئی میں قائم کریسنٹ پٹرولیم کمپنی کے ایک اعلیٰ عہدیدار ہیں اور انھیں پاسداران انقلاب کے اہلکاروں نے گرفتار کیا جو کہ ایرانی حکومت کی بجائے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کو جوابدہ ہے۔
یہ گرفتاری ایران کے چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے کے "یوم نفاذ" یعنی 18 اکتوبر سے چند روز بعد عمل میں آئی۔
گوکہ اس گرفتاری کی امریکی محکمہ خارجہ نے تاحال تصدیق نہیں کی لیکن اس کا کہنا ہے کہ ایران میں گرفتار امریکی شہریوں کا معاملے پر جمعرات کو وزیر خارجہ جان کیری کی اپنے ایرانی ہم منصب جواد ظریف سے ہونے والی ملاقات میں بات چیت کی گئی۔
سیامک کی گرفتاری کے بعد ایران میں زیر تحویل ایرانی نژاد امریکی شہریوں کی تعداد چار ہو گئی ہے۔
ان میں واشنگٹن پوسٹ کے نامہ نگار جیسن رضائیان بھی شامل ہیں جن پر حال ہی میں جاسوسی کے مقدمے میں فرد جرم عائد کی گئی۔
اس کے علاوہ سابق فوجی امیر حکمتی بھی شامل ہیں جو کہ اپنی دادی سے ملنے گئے تھے اور جاسوسی کے الزام میں دھر لیے گئے۔ 2013ء میں امریکی شہری سعید عابدینی پر ایران کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کی فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ وہ مذہبی مبلغ تھے اور ان پر یہ الزام گھروں میں نجی حیثیت میں مذہبی اجتماع کرنے کی بنا پر عائد کیا گیا۔
یہ تینوں خود پر لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔
سیامک اپنے آبائی وطن سے متعلق اپنے متنازع احساسات کا کھل کر اظہار کرتے رہے ہیں۔ وہ 1979ء میں انقلاب ایران کے بعد اپنے والد کے ساتھ ایران سے چلے گئے تھے جنہیں اقوام متحدہ میں ملازمت مل گئی تھی۔
اس کے بعد وہ پہلی مرتبہ کالج میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1993ء میں ایران واپس گئے تھے اور اس وقت انھیں امریکی شہریت مل چکی تھی۔
سیامک کے اہل خانہ نے ان کی گرفتاری سے متعلق بیان یا ردعمل دینے سے انکار کیا ہے۔