انٹرنيشنل کريمنل پوليس آرگنائزيشن (انٹرپول) نے پاکستان کے سابق وزير خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف ريڈ کارڈ نوٹس جاری کرنے کے لیے پاکستان کی استدعا خارج کر دی ہے۔
انٹرپول کی جانب سے ايک سرٹيفيکيٹ ميں واضح طور پر بتايا گيا ہے کہ اب اسحاق ڈار نوٹس پر نہيں ہيں اور انہيں کلين چٹ ديتے ہوئے مواد حذف کرنے کی ہدايت کی ہے۔
دوسری جانب قومی احتساب بيورو ’ نيب‘ کے مطابق انٹرپول کسی کو بے گناہ قرار دينے کا اختيار نہیں رکھتا کيونکہ اسے ملزم کو گرفتار کر کے متعلقہ ملک کے حوالے کرنے کی درخواست کی جاتی ہے۔ نيب کے مطابق اگر اسحاق ڈار کو اپنی بےگناہی کا یقین ہے تو ان کو پاکستان واپس آ کر خود اپنے خلاف مقدمات کا دفاع کرنا چاہیے اور اپنی بےگناہی ثابت کرنی چاہیے۔
پاکستان مسلم ليگ (ن) انٹرپول کے اس فيصلے کو بہت بڑی کاميابی قرار ديتی ہے۔ وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے مسلم ليگ (ن) کے سينئر پارليمانی رکن احسن اقبال کا کہنا تھا کہ انٹرپول کا فيصلہ اسحاق ڈار کے لیے ايک بہت بڑا سرٹيفيکيٹ ہے جنہوں نے بقول ان کے بہت محنت اور جانفشانی کے ساتھ پاکستان کی معيشت ميں اہم کردار ادا کيا تھا۔
انھوں نے مزيد بتايا کہ انٹرپول ايک بين الاقوامی ادارہ ہے اور اس نے تمام ثبوت ديکھنے کے بعد حکومت پاکستان کی شکايت رد کر دی ہے۔ احسن اقبال کے مطابق يہ اسحاق ڈار کی بہت بڑی فتح ہے۔
ياد رہے کہ وفاقی تحقيقاتی ادارے کی جانب سے انٹرپول کو ريڈ نوٹس جاری کرنے کے متعلق درخواست بھيجی گئی تھی۔ سابق وزير خزانہ اسحاق ڈار نے ايک ٹوئٹ کے ذریعے حکومت پاکستان کی جانب سے درخواست کی منسوخی پر تمام لوگوں کے پيغامات اور نيک تمناؤں کا شکريہ ادا کيا۔
AlhamdoLillah Heartfelt thanks dear all for messages & prayers on Interpol’s rejection of GOP’s Red Warrant request. Congratulations to all on merited bail decision reg @MaryamNSharif. Indeed, Allah SWT is Most Merciful and Kind. pic.twitter.com/yyRsltA2BM
— Ishaq Dar (@MIshaqDar50) November 4, 2019
اسلام آباد ہائی کورٹ ميں وکالت کرنے والے قيصر امام کے مطابق انٹرپول بنيادی طور پر مجرموں کے تبادلے کو ڈيل کرتا ہے۔ اگر ايک مجرم کسی دوسرے ملک ميں موجود ہے جس نے دوسری سرزمين پر کوئی جرم کيا ہے تو اس کو گرفتار کر کے واپس اسی ملک کے حوالے کر ديا جاتا ہے جہاں اس نے جرم کيا ہو۔
قيصر امام کے مطابق اسحاق ڈار نے شروع دن سے يہ بيانيہ اپنايا ہوا تھا کہ حکومت ان کو سياسی بنيادوں پر ہدف بنا رہی ہے۔ قيصر امام کے مطابق اب يہ انٹرپول کو ديکھنا تھا کہ يہ کيسز واقعی کريمنل تھے يا سياسی بنيادوں پر قائم کئے گئے ہيں۔ يہی وجہ ہے کہ انٹرپول نے اس سے اپنے آپ کو الگ کر ليا ہے۔
يار رہے کہ اسحاق ڈار کے خلاف نيب نے آمدن سے زائد اثاثوں کا ريفرنس دائر کيا ہوا ہے۔ احتساب عدالت ميں بار بار نوٹس کے باوجود پيش نہ ہونے کے باعث عدالت ان کو اشتہاری قرار دے چکی ہے اور ان کی جائیداد بھی ضبط کر چکی ہے۔