کمشنر اسلام آباد نے طاہر داوڑ قتل کیس کی تحقیقات کے لیے ’جے آئی ٹی‘ کا اعلان کر دیا ہے۔
جمعے کے روز باضابطہ نوٹی فیکیشن جاری کرتے ہوئے، اُنھوں نے بتایا کہ اس مشترکہ تحقیقاتی ٹیم میں آئی ایس آئی اور آئی بی کا ایک ایک نمائندہ شامل ہوگا۔ اس میں قتل اور دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
پولیس کے اعلیٰ اہل کار مبینہ طور پر اسلام آباد سے اغوا ہوئے اور افغانستان میں قتل ہوئے۔ جمعرات کو طورخم پر میت کی منتقلی کے بعد، پشاور میں اُن کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور تدفین ہوئی۔
ادھر، سی ڈی اے کے ڈائریکٹر، ایاز خان محسود نے ایک وڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے، سماجی میڈیا میں اپنی گمشدگی سے متعلق آنے والی خبروں کی تردید کی ہے۔ وڈیو پیغام میں، ایاز خان محسود نے کہا ہے کہ ’’میرے موبائل گم ہوگئے ہیں۔ میں ڈیرہ اسماعیل خان میں اپنے رشتہ داروں کے پاس آیا ہوا ہوں اور بخیریت ہوں‘‘۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ میں ’’تمام لوگوں، بشمول پشتونوں سے، اپیل کرتا ہوں کہ میرے بارے میں پریشان نہ ہوں۔ میں ٹھیک ٹھاک ہوں‘‘۔
ایاز خان محسود نے کہا کہ ’’میں حکومت کا مشکور ہوں۔ میں سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں ڈی آئی خان میں اپنے رشتہ داروں کے پاس ہوں؛ اور بالکل ٹھیک ٹھاک ہوں‘‘۔
اِس سے قبل، شمالی وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی اور ’پشتون تحفظ تحریک‘ کے بانی رکن محسن داوڑ نے حکومت کی جانب سے پولیس افسر طاہر خان داوڑ کے اغوا اور سرحد پار افغانستان میں ان کے قتل کے بارے میں لگائے جانے والے الزامات پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ اس بارے میں بین الاقوامی اداروں سے تحقیقات ہونی چاہیے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر محسن داوڑ نے ایک پیغام میں کہا ہےکہ سرحدی گزرگاہ طورخم میں افغان حکومت کے ساتھ طاہر خان داوڑ کی میت کی حوالگی سے قبل اُنہوں نے مقامی حکام کو اعتماد میں لیا تھا؛ اور یہ فیصلہ کیا تھا کہ میت کو پاکستان لانے کے بعد سرکاری طور پر تجہیز و تدفین کیلئے اسے حکام کے حوالے کیا جائیگا۔
مگر، بقول اُن کے، ’’سرحد عبور کرنے کے بعد ان پر اور ان کے ساتھیوں پر سیکورٹی اہلکاروں نے ہلہ بول کر زبردستی میت قبضے میں لے لی‘‘۔
’وائس آف امریکہ‘ سے بات چیت میں محسن داوڑ نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے طاہر داوڑ کے اسلام آباد سے اغوا اور سرحد پار افغانستان میں ان کے قتل کے بارے میں تحقیقات کا حکم دیا ہے، ’’مگر ابھی تک نہ تو اسلام آباد اور نہ ہی پشاور میں اس سلسلے میں کوئی باقاعدہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے‘‘۔
تاہم، وزیر مملکت برائے امور داخلہ شہریار آفریدی نے ایک روز قبل پشاور میں پریس کانفرنس کے دوران طاہر خان داوڑ کی لاش کے حوالگی سے متعلق افغان حکومت کے رویے کو افسوناک قرار دیا تھا۔
اُدھر پشاور کے حیات آباد میں طاہر خان داوڑ کی وفات پر فاتحہ خوانی اور لواحقین کے ساتھ اظہار ہمدردی کا سلسلہ جاری ہے۔
حزب اختلاف میں شامل جماعتوں کے کئی رہنماؤں نے، جن میں سابق وزیر اعلیٰ حیدر خان ہوتی اور قومی وطن پارٹی کے چیرمین آفتاب احمد خان شیرپاؤ اور میاں افتخار حسین نمایاں ہیں، مرحوم کی رہائش پر فاتحہ خوانی میں شرکت کی اور غمزدہ خاندان کے ساتھ اظہار ہمدردی کی۔