بھارت کی سپریم کورٹ نے حکومت کی جانب سے گزشتہ برس متعارف کرائے گئے زرعی قوانین پر عمل درآمد روکنے کا حکم دیتے ہوئے کسانوں اور حکومت کے درمیان اتفاق رائے کے لیے ماہرین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ جس کو مسئلہ حل کرنے میں دلچسپی ہو گی وہ کمیٹی سے بات کرے گا اور اپنا مؤقف رکھے گا۔
مذکورہ قوانین کے خلاف کسانوں کا احتجاج 48 روز سے جاری ہے اور دارالحکومت دہلی سے متصل ہریانہ اور اترپردیش کی سرحدیں بند ہیں۔ حکومت اور کسانوں کے درمیان بات چیت کے آٹھ ادوار ہو چکے ہیں۔ تاہم کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔
تین رُکنی بینچ کی سربراہی کرنے والے بھارت کے چیف جسٹس ایس اے بوبڈے نے ریمارکس دیے کہ عدالت اور سیاست میں فرق ہوتا ہے۔ لہذٰا فریقوں کو اس معاملے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا ہو گا۔
حکومت کا عدالت میں مؤقف تھا کہ یہ قوانین عجلت میں نہیں بلکہ 20 برس کی عرق ریزی کے بعد متعارف کرائے گئے تھے۔
حکومتی وکیل تشار مہتہ نے دلائل دیے کہ نئے قوانین سے متعلق کسانوں کو گمراہ کیا گیا اور ان قوانین سے متعلق بے بنیاد خبریں پھیلائی گئیں۔ یہ قانون کسانوں کو تحفظ دیتا ہے۔
SEE ALSO: بھارت میں کسان کیوں احتجاج کر رہے ہیں؟دورانِ سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ لوگوں کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ ہمیں اس احتجاج کی وجہ سے لوگوں کی جان و مال کی فکر لاحق ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس مسئلے کا حل چاہتے ہیں اور آئین ہمیں یہ طاقت دیتا ہے کہ ان قوانین پر عمل درآمد روک دیں۔
آل انڈیا کسان رابطہ کمیٹی کی جانب سے تاحال کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔ لیکن متعدد کسان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ کمیٹی سے بات نہیں کریں گے اور جب تک قوانین واپس نہیں لے لیے جاتے ان کا احتجاج جاری رہے گا۔
کسان تنظیم 'بھارتیہ کسان یونین' کے ترجمان راکیش ٹکیت نے کہا کہ "ہم عدالتی فیصلے کے باوجود مطمئن نہیں ہیں اور جب تک حکومت یہ متنازع قوانین واپس نہیں لے لیتی، احتجاج جاری رہے گا۔"
کسان رہنما منجیت سنگھ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حکومت پہلے ہی اس معاملے پر کمیٹی بنانے کی پیش کش کر چکی ہے جسے کسان مسترد کر چکے ہیں اور اب عدالت بھی کمیٹی بنانے کا کہہ رہی ہے۔
پیر کو سماعت کے دوران چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کہا تھا کہ احتجاج کے دوران کچھ لوگوں نے خودکشی کی ہے۔ احتجاج میں معمر افراد اور خواتین بھی شامل ہیں۔ آخر یہ کیا ہو رہا ہے؟
عدالت نے احتجاج کے دوران کھانے پینے کا بھی مسئلہ اٹھایا اور شدید سردی میں کسانوں کے دھرنے پر تشویش بھی ظاہر کی۔
ایک سینئر تجزیہ کار پرتاپ سوم ونشی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس امید کا اظہار کیا کہ اب جب کہ عدالت نے متنازع قوانین پر عمل درآمد روک دیا ہے اور ایک کمیٹی بنا دی ہے تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔
انہوں نے اس تاثر کو رد کیا کہ عدالت نے حکومت کے ایما پر کمیٹی تشکیل دی ہے۔ ان کے مطابق عدلیہ حکومت کی ہدایت پر کام نہیں کرتی۔
عدالتی فیصلے پر حکومت کی جانب سے تاحال کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
عدالت نے کسانوں کی جانب سے 26 جنوری یعنی بھارت کے یوم جمہوریہ پر دار الحکومت دہلی میں ٹریکٹر مارچ نکالنے کے اعلان پر کسان تنظیموں کو نوٹس بھی جاری کیا ہے۔