بھارت: بارش کے پانی سے بنجر علاقوں کو سیراب کرنے والی 'جل سہیلیاں'

آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے بڑے ملک بھارت کو ایک ارب 40 کروڑ لوگوں کی پانی کی ضروریات پوری کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے جب کہ موسمیاتی تبدیلی نے اس مسئلے کو مزید سنگین کردیا ہے۔

ملک میں پانی کی کمی کی وجہ سے بیشتر کسان اپنی زمینیں چھوڑنے پر مجبور ہیں اور نئے کام کی تلاش میں شہروں کا رخ کر رہے ہیں۔ اس سنگین صورتِ حال کے پیشِ نظر بھارت میں خواتین کا ایک گروپ پانی کی کمی پورا کرنے کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔

خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق بھارت کی ریاست اتر پردیش اور مدھیہ پردیش کے درمیان واقعے بندل کھنڈ خطے میں 'جل سہیلی' کے نام سے خواتین کا ایک گروپ علاقے میں پانی کی کمی پورا کرنے کا کام کر رہا ہے۔

ببیتا راجپوت اس گروپ کی ایک رکن ہیں جنہوں نے تین سال قبل ایک ہزار خواتین پر مشتمل گروپ 'جل سہیلی' میں شمولیت اختیار کی تھی۔

انہوں نے 'اے ایف پی' کو بتایا کہ "ہمارے بڑے بوڑھے کہتے ہیں کہ یہاں ندی سال بھر بھری رہتی تھی لیکن اب یہاں پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں ہے۔"

ببیتا کے مطابق اس علاقے میں پانی کا بحران ہے اور یہاں تمام کوئیں خشک ہو چکے ہیں۔

خواتین کا یہ گروپ جون کے مہینے میں مون سون کے دوران بارش کا پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیم اور پانی کے دیگر ذخائر بناتا ہے۔

یاد رہے کہ بھارت کی سالانہ بارش کا 75 فی صد مون سون کے سیزن میں ہی برستا ہے۔

ببیتا راجپوت کا کہنا ہے کہ ان کے کام نے بارشوں سے جمع ہونے والے پانی کو زیادہ دنوں تک ذخیرہ کرنے اور اپنے گاؤں کے ارد گرد نصف درجن کے قریب آبی ذخائر کو بحال کرنے میں مدد فراہم کی ہے۔

بھارت کے نیتی آیوگ پبلک پالیسی سینٹر نے پیش گوئی کی ہے کہ ملک کی تقریباً 40 فی صد آبادی دہائی کے آخر تک پینے کے پانی تک رسائی سے محروم ہو سکتی ہے۔

سول سوسائٹی کے کارکن سنجے سنگھ نے مدھیہ پردیش کے گاؤں اگروتھا میں خواتین کو بارش کے پانی ذخیرہ کرنے کی تربیت دینے میں ان کی مدد کی ہے۔

سنجے سنگھ نے 'اے ایف پی' کو بتایا کہ حکومت ہر شہری کے لیے پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے میں ناکام رہی ہے باالخصوص دیہی علاقوں میں، جو انہیں پرانی روایت اور طریقوں کی طرف واپس جانے پر مجبور کر رہی ہے۔"

اگروتھا میں آب پاشی کا پروجیکٹ شروع ہونے سے قبل خواتین کو پانی کے لیے میلوں دور کا سفر طے کرنا پڑتا تھا جب کہ ایسا بھی ہوتا تھا کہ وہ پانی کے بغیر خالی ہاتھ واپس لوٹ جاتی تھیں۔

سنجے سنگھ نے کہا کہ بھارت کے گاؤں میں کوئیں سے پانی نکالنا روایتی طور پر خواتین کی ذمہ داری ہوتی ہے اور ان میں سے چند خواتین کو اس وقت تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب وہ اپنے گھر کے لیے مناسب مقدار میں پانی نہیں لا پاتیں۔

انہوں نے کہا کہ خشک سالی اس خطے میں ایک بڑی سماجی تبدیلی بھی ساتھ لائی ہےاور وہ تبدیلی یہ کہ یہاں رہنے والے مردوں کو کمانے کے لیے اپنا گھر بار چھوڑ کر شہروں کا رخ کرنا پڑا۔

لیکن سن 2005 میں جب سے 'جل سہیلی' کی بنیاد رکھی گئی ہے اس سے تقریباً 110 سے زائد گاؤں کو ان کی پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے خود پر انحصار کرنے میں مدد ملی ہے۔

للت پور ڈسٹرکٹ سے تعلق رکھنے والی سری کمار کے گاؤں کو بھی پانی کی قلت کا سامنا تھا۔ ان کے بقول پانی کی کمی کی وجہ سے کاشت کاری کرنا ناممکن ہوگیا تھا اور گاؤں کے زیادہ تر مرد کمانے کے لیے شہر چلے گئے تھے۔

بعد ازاں سنجے سنگھ کی جانب سے امداد کے بعد انہوں نے دیگر رضاکاروں کی مدد سے گاؤں میں فٹ بال کے میدان جتنا بڑا گڑھا کھودا جہاں مون سون کی بارشوں کا پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے۔

ان کے بقول اب گاؤں میں پانی کا اتنا ذخیرہ موجود ہے کہ پورا سال انہیں پانی کی کمی کا سامنا نہیں ہوتا اور اب ہمارے پاس اپنے گھروں اور مویشیوں کے لیے بھی خاصا پانی ہوتا ہے۔

اس خبر میں شامل مواد خبر رساں ادارے'اے ایف پی' سے لیا گیا ہے۔