اس مہینے کے شروع میں، بھارت کی دور درازشمال مشرقی ریاست آسام میں جب سات ڈبوں والی ٹرین، ریڈ ربن ایکسپریس آ کر رکی، تو گاؤں اور قصبوں سے ہزاروں لوگ تماشہ دیکھنے کے لیے موجود تھے ۔ اس ٹرین میں ایڈز کے بارے میں طبی مشورہ دینے والا عملہ اور علاج کی سہولتیں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ، فنکاروں کا ایک گروپ بھی پورے بھارت میں اس ٹرین کے ذریعے سفر کر رہا ہے تا کہ لوگوں میں ایچ آئی وی ایڈز کے بارے میں احساس بیدار کیا جائے ۔
راکھی چکرہ برتی آسام ایڈز کنٹرول سوسائٹی کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس ٹرین میں نمائشوں کا انتظام ہے اورسڑکوں پر ڈراموں اور دوسرے پروگراموں کے ذریعے یہ بتایا جاتا ہے کہ اس بیماری کا وائرس کس طرح ایک سے دوسرے کو لگتا ہے، اور علاج کی کیا سہولتیں دستیاب ہیں۔
راکھی کہتی ہیں’’لوگوں کی بہت بڑی تعداد اس ٹرین پر آئی اور انھوں نے بڑی دلچسپی سے پوری ٹرین کی سیر کی اور بہت سے سوالات پوچھے۔ بہت سے لوگوں نے ہم سے مشورہ کیا۔ انھوں نے ایڈز کے ٹیسٹ بھی کرائے۔‘‘
بھارت میں ایچ آئی وی کے اولین کیسوں کی تشخیص کے بعد، 25 برس تک ، ایڈز کے خلاف جنگ دہلی، ممبئی، چنائے جیسے بڑے شہروں تک محدود رہی۔ ان شہروں میں ایڈز سے بچاؤ کے پروگرام جسم فروش عورتوں، ٹرک ڈرائیوروں اور دوسرے علاقوں سے کام کی تلاش میں شہروں میں آنے والے افراد کے لیے تھے ۔ لیکن اب جب کہ ایڈز کا وائرس ملک کے طول و عرض میں پھیل گیا ہے، تو ریڈ ربن ایکسپریس جیسے پروگرام دور دراز علاقوں اور گاؤںمیں لوگوں کو اس وائرس کے بارے میں معلومات فراہم کر رہے ہیں اور ایڈز سے بدنامی کے خوف کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جنوبی ایشیا میں اندازاً 30 لاکھ افراد کو ایڈز کا وائرس لگ چکا ہے ۔ جنوبی افریقہ اور نائجیریا کے بعد، دنیا میں ایچ آئی وی ایڈز کے سب سے زیادہ مریض بھارت میں ہیں۔ایچ آئی وی کے خلاف مہم پوری طرح شروع ہونے میں کچھ وقت لگا لیکن اب اس کے نتائج سامنے آ رہے ہیں، خاص طور سے جنوبی ریاستوں میں ،جہاں یہ مسئلہ بہت سنگین ہو گیا تھا۔نئی دہلی میں UNAIDS کے پروگرام کوآرڈینیٹر آسا اینڈرسن کا کہنا ہے کہ اب ملک میں ایچ آئی وی پھیلنے کی شرح کم ہو گئی ہے ۔تا ہم صحت کے کارکن انتباہ کرتے ہیں کہ اگرچہ ایچ آئی وی کے قابو سے باہر ہوجانے کا خطرہ تو ٹل گیا ہے، لیکن ابھی بہت سے مشکل چیلنج باقی ہیں۔
سونیتی سولومن نے بھارت کی جنوبی ریاست تامل ناڈو میں ایچ آئی وی کے اولین کیسوں کی تشخیص میں مدد دی تھی۔ وہ 1986 سے ایڈز کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ چنائی میں ان کے سینٹر میں پہلے ایچ آئی وی کے جو مریض آتے تھے، ان میں اکثریت ٹرک ڈرائیوروں اور جسم فروشی کرنے والوں کی ہوتی تھی۔ اب بیشتر مریض وہ ہوتے ہیں جو انجیکشن کے ذریعے منشیات استعمال کرتے ہیں یا ایسے مرد ہوتے ہیں جو دوسرے مردوں کے ساتھ جنسی فعل کرتے ہیں ۔
بھارت میں حال ہی میں وہ قانون منسوخ کر دیا گیا ہے جس کے تحت ہم جنس پرستی جرم تھی۔ لیکن سونیتی سولومن کہتی ہیں کہ بہت سے مرد اپنی جنسی زندگی کے بارے میں بات نہیں کرتے۔’’بھارت میں کوئی آپ کو یہ نہیں بتائے گا کہ وہ ہم جنس پرست ہے۔ لوگوں کی جنسی زندگی کی ہسٹری معلوم کرنا بہت مشکل ہے لیکن ہم پوری کوشش کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہوتا یہ ہے کہ ایسےلوگ اپنے پارٹنر کو بھی ، یعنی اپنی بیویوں کو، اور پھر بچو ں کو بھی ایچ آئی وی میں مبتلا کر دیتے ہیں۔‘‘
UNAIDS کے آسام اینڈرسن کہتے ہیں کہ بھارت کو ایڈز سے بچاؤ اور علاج کے پروگراموں میں ان گروپوں پر توجہ دینی چاہیئے جن میں ایچ آئی وی کی شرح بہت اونچی ہے، جیسے انجیکشن کے ذریعے منشیات لینے والے لوگ، جسم فروشی کرنے والی نوجوان لڑکیاں، اور ہم جنس پرست مرد۔
ایڈز کے خلاف جنگ میں مصروف کارکنوں کے لیے اب بھی اہم ترین مسئلہ وہی ہے جو اس وقت تھا جب ایچ آئی وی کے پہلے کیس کا پتہ چلا تھا۔ یعنی یہ کہ لوگوں کو کس طرح اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ ٹیسٹ کرائیں تا کہ یہ پتہ چل جائے کہ ان کے جسم میں ایڈز کا وائرس موجود ہے یا نہیں۔
سونیتی سولومن کہتی ہیں کہ ایچ آئی وی والے تقریباً نصف لوگوں کو معلوم بھی نہیں ہوتا کہ ان کے جسم میں ایڈز کا وائرس موجود ہے ۔’’میرے خیال میں اہم ترین بات یہ ہے کہ رضاکارانہ طور پر مشورہ کرنے اور ٹیسٹ کرانے پر توجہ دی جائے ۔ اگرچہ بھارت میں پورے ملک میں تقریباً 4,000 مشورہ کرنے اور ٹیسٹنگ کے مرکز موجود ہیں، لیکن ان میں بہت کم لو گ جاتے ہیں۔ انھیں یہ ڈر ہوتا ہے کہ ٹیسٹ کرانے سے ان کی بدنامی ہوگی۔ میں سمجھتی ہوں کہ کمیونٹی کی سطح پر مہم چلائی جانی چاہیئےتا کہ لوگ ٹیسٹ کے لیے آئیں۔‘‘
ریڈ ربن ایکسپریس کا مقصد بھی بالکل یہی ہے۔ سال کے بقیہ حصے میں یہ ٹرین پورے ملک میں سفر جاری رکھے گی اور لوگوں کو ٹیسٹ اور مشورے کے لیے آمادہ کرے گی۔