عمران خان کے دورۂ امریکہ پر پارلیمان کو اعتماد میں لینے کا مطالبہ

فائل

وزیر اعظم عمران خان دورہ امریکہ کے لئے اپنے وفد کے ہمراہ اسلام آباد سے واشنگٹن کے لئے روانہ ہو چکے ہیں۔ حزب اختلاف کے سرکردہ رہنماؤں نے عمران خان کے دورہ امریکہ کو ’’اہمیت کا حامل‘‘ قرار دیتے ہوئے، کہا ہے ’’بہتر یہ ہوتا کہ وہ اس دورے کے حوالے سے پارلیمان کو اعتماد میں لے کر جاتے‘‘۔

سیاسی رہنماؤں کا خیال ہے کہ ’’صدر ٹرمپ کی طرح وزیر اعظم عمران خان بھی غیر متوقع شخصیت کے مالک ہیں۔ لہٰذا، دورے کے دوران کسی اونچ نیچ کا خدشہ رہے گا‘‘۔

حزب اختلاف کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ حکومت کو چونکہ فوج کی حمایت حاصل ہے، لہٰذا وہ کسی اور کی حمایت کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔

پیپلز پارٹی کی نائب صدر سینیٹر شیری رحمٰن کہتی ہیں کہ حکومت پارلیمان سے رائے لینے اور دیگر جماعتوں کی شراکت داری سے مستفید ہونے کے لئے قطعاً تیار نہیں ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ "حکومت سمجھتی ہے کہ انہیں فوج کی حمایت حاصل ہے۔ لہٰذا، کسی اور سہارے کی ضروت نہیں۔ یہ عمران خان کی خوش قسمتی ہے کہ فوج اور حکومت ایک صفحے پر ہیں"۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے، شیری رحمٰن نے کہا ہے کہ ’’حکومت اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ جارحانہ رویہ رکھے ہوئے ہے‘‘، اور یہ کہ ’’پاکستان کے آدھے پارلیمان کو دیوار سے لگا کر حکومت ملک کا مقدمہ کیسے لڑے گی؟‘‘

شیری رحمٰن نے کہا کہ امریکہ کی جانب سے پاکستانی قیادت کا دورہ ایک ہی زاویے سے دیکھتے ہوئے رکھا گیا ہے اور وہ یہ کہ امریکی فوج کا افغانستان سے باعزت انخلا کیسے ممکن ہوگا، جس کے لئے واشنگٹن کی جانب سے 'ڈو مور' کی مانگ ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ ’’پاکستان نے طالبان کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بٹھانے میں معاونت کی۔ اب امریکہ چاہے گا کہ امن عمل کے استحکام کی ضمانت لے۔ لیکن، پاکستان اس عمل میں کسی قسم کی ضمانت نہیں دے سکتا‘‘۔

شیری رحمٰن نے کہا کہ انہیں خدشہ ہے کہ اس دورے کے دوران کوئی اونچ نیچ نہ ہوجائے، کیونکہ، بقول ان کے، ’’صدر ٹرمپ اور وزیر اعظم عمران خان دونوں غیر یقینی شخصیت کے مالک ہیں‘‘۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی وزیر اعظم کا یہ دورہ ذاتی نوعیت کا ہے، کیونکہ یہ امریکہ محکمہ خارجہ کے ذریعے طے نہیں ہوا۔ اور، ان کے بقول، ’’سعودی عرب نے وائٹ ہاؤس پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے رکھوایا ہے۔‘‘

شیری رحمٰن نے کہا کہ ’’پاکستان افغانستان سے اتحادی فوجوں کے انخلا کے نتیجے میں قربانی کا بکرا بننے سے کیسے بچے گا؟ اس پر پارلیمان کو بریفنگ نہیں دی گئی، نہ ہی ہم نے یہ سنا ہے کہ حکومت ایران پاکستان گیس پائپ لائن پر چابہار بندگاہ کی طرح پابندیاں اٹھوانے کی کوئی بات کرے گی‘‘۔

پیپلز پارٹی رہنما کا کہنا تھا کہ امریکی قیادت کے سامنے پاکستان کا مقدمہ کیسے پیش کرنا ہے؟ اس بارے حکومت نے ان کی جماعت کو نہ تو اعتماد میں لیا نہ ہی حمایت چاہی اور وہ حکومت سے اس بارے میں اس لئے بھی بات نہیں کر سکتیں کیونکہ اگر وہ بات کریں تو کہا جاتا ہے کہ اپوزیشن این آر او مانگ رہی ہے۔

جمعیت علما اسلام ف کے سینٹر حافظ حمد اللہ کہتے ہیں کہ یہ حکومت پارلیمان کی بالادستی کی بات کرتی ہے۔ لیکن، اس اہم ترین دورہ امریکہ سے متعلق نہ پارلیمان کو اعتماد میں لیا گیا ہے نہ ہی اپوزیشن جماعتوں کو۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دورہ امریکہ سے قبل بھارت کے لئے اپنی فضائی حدود کو کھولنا، حافظ سعید کی گرفتاری جیسے اقدامات کا مقصد امریکہ کو دیکھانا تھا کہ کہ ان کے ایجنڈے پہ کام کیا جا رہا ہے۔

حافظ حمد اللہ نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے ٹوئٹ کے ذریعے حافظ سعید کی گرفتاری پر خوشی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کے یہ اقدمات پاکستان کی نظریاتی اساس کو زمین بوس کرنے کے مترادف ہیں۔

مسلم لیگ ن کی رہنما، سینٹر نزہت صادق کہتی ہیں کہ امریکہ کے ساتھ پاکستان کے دیرینہ اور اسٹریٹجک تعلقات رہے ہیں؛ اور خطے میں رونما ہونے والی تبدیلوں کے تناظر میں وزیر اعظم کا دورہ واشنگٹن انتہائی اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس دورے میں پاکستان کی ترجیح خطے میں امن اور امریکہ کے ساتھ دوطرفہ تعلقات میں بہتری لانا ہونا چاہئے۔

نزہت صادق نے کہا کہ اگرچہ وزیر اعظم اپنے دورے سے متعلق پارلیمان کو اعتماد میں لے کر نہیں گئے۔ لیکن، واشنگٹن سے واپسی پر ان کی جماعت پارلیمنٹ میں حکومت سے اس دورے میں ہونے والی بات چیت اور امور کے بارے میں دریافت کرے گی۔

عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ ’’رابطے اور بات چیت کے بغیر مسائل کا حل اور دوریاں ختم نہیں ہو سکتیں۔ اس لئے پاک امریکہ تعلقات میں بہتری کے لئے وزیر اعظم عمران خان کا دورہ امریکہ خوش آئند ہے‘‘۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’اچھا ہوتا کہ حکومت دورہ امریکہ کے حوالے سے پارلیمنٹ سے مشاوت کرتی۔ لیکن بدقسمتی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان خود کو عقل کل سمجھنے لگے ہیں اور اہم قومی اور عالمی معاملات میں پارلیمان کو نظر انداز کیا جا رہا ہے‘‘۔

انہوں نے کہا کہ آج ہم سے پڑوسی ممالک بھی ناراض ہیں اور امریکہ اور روس جیسی عالمی طاقتیں بھی خوش نہیں اور ایسے میں ہمیں اپنی خارجہ پالیسی از سرے نو ترتیب دینا ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے جس کی وجہ امریکہ کی اس خطے میں اپنائی جانے والی غلط پالیسیاں ہیں جس کے لئے ہمیں امریکہ کو باور کروانا ہوگا کہ افغانستان اور خطے کے لئے اپنی غلط پالسیوں کو درست کرے۔

تحریک انصاف کی مرکزی رہنما سینیٹر سمینہ سعید کہتی ہیں کہ امریکہ کو یہ احساس ہوگیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ برابری کی بنیاد پر معاملات کو آگے لے کر جایا جا سکتا ہے نہ کہ ڈرا دھمکا کر۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اپوزیشن جماعتیں چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے میں مصروف ہیں اور ان کے پاس ملکی امور کے لئے فرصت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت قومی اسمبلی یا سینیٹ کا اجلاس نہیں چل رہا تھا اس بنا پر دورہ امریکہ کے حوالے سے پارلیمان میں بات نہیں ہو سکی۔ لیکن دورے سے واپسی پر حکومت امریکی قیادت کے ساتھ ہونے والی بات چیت پر پارلیمان کو اعتماد میں لے گی۔

سیاسی قیادت اس بات پر متفق ہے کہ دورہ واشنگٹن کے دوران امریکی قیادت کے سامنے پاکستان کو اپنا موقف امریکی قیادت کے سامنے رکھنے کا موقع ملے گا اور امید کا اظہار کیا کہ وزیر اعظم عمران خان امریکہ کےتحفظات کو دور کرنے اور پاکستان کی واشنگٹن سے توقعات کو پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔