وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ افغانستان میں امن کے حصول کے لیے، جو پاکستان اور امریکہ کا مشترکہ مقصد ہے اور خطے میں استحکام کے لیے پاکستان بھرپور کوششیں کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا وزیراعظم عمران خان، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات میں امداد نہیں بلکہ باہمی مفادات پر مبنی معاشی اور اسٹریٹجک تعلقات کو آگے بڑھانے پر زور دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نہیں چاہیے گا کہ امریکہ اور ایران میں کشیدگی بڑھے کیونکہ اس سے افغانستان میں امن عمل کو نقصان پہنچے گا۔
واشنگٹن میں پاکستان کے سفارت خانے میں، وزیراعظم پاکستان کے اتوار سے شروع ہونے والے تین روزہ دورے کے پروگرام کی تفصیل بتاتے ہوئے وزیرخارجہ نے کہا کہ پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت امریکہ کے ساتھ صاف گوئی کے اصول پر تعلقات قائم رکھے ہوئے ہے۔
’’اسلام آباد جو کر سکے گا، وہی کہے گا، جو کام نہیں کر سکتے اس کا وعدہ نہیں کریں گے‘‘
وزیراعظم عمران خان 21 جولائی اتوار کو، وزیرخارجہ کے مطابق، دوپہر تین بجے کمرشل فلائٹ سے واشنگٹن پہنچ رہے ہیں۔ کفایت شعاری مہم کے تحت ہوٹلوں میں قیام کے بجائے پاکستان کے سفیر ڈاکٹر اسد مجید خان کی رہاش گاہ پر قیام کریں گے اور سفارت خانے میں مختلف وفود سے ملاقاتیں کریں گے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان امریکہ کے سامنے امداد کی بھیک مانگنے نہیں آ رہا بلکہ چاہتا ہے کہ واشنگٹن پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے آسانیاں پیدا کرے اور اس ضمن میں پاکستان کے لیے محکمہ خارجہ کی ٹور ایڈوائزری کی کیٹگری تبدیل کرے۔
انہوں نے کہا کہ سی پیک سے متعلق یہ تاثر درست نہیں کہ یہ منصوبہ صرف پاکستان اور چین کے درمیان ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کے کاروبار سی پیک میں بزنس زونز میں بھرپور سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ امریکی انتظامیہ اس بارے میں تعاون کرے گی۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان نے اسی ہفتے اپنی فضائی حدود تمام غیرملکی فلائٹس کے لیے کھول دی ہیں۔ افغان صدر اشرف غنی نے بھی حالیہ دورہ پاکستان میں اس بابت اصرار کیا تھا۔ اس اقدام سے افغانستان اور بھارت ہی کو نہیں پوری دنیا کی ائرلائنز اور مسافروں کو فائدہ پہنچا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اتنہاپسندی کے خلاف حکومت کے حالیہ اقدامات بہت جاندار ہیں اور اپنے ملک کے مفاد کے لیے اٹھائے گئے ہیں تاکہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی درجہ بندی میں ملک کو بہتری حاصل ہو۔ انہوں نے کہا کہ بھرپور اقدامات کیے ہیں، اب امریکہ اور باقی دنیا سے چاہیں گے کہ وہ ان اقدامات کا اعتراف کریں۔
پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے وائس آف امریکہ کے اس سوال کے جواب میں کہ اسلام آباد نئی دہلی کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے لیے واشنگٹن سے کس طرح کی مدد چاہتا ہے، کہا کہ پاکستان نے پلوامہ حملے کے بعد انتہائی کشیدگی اور بھارت کی طرف سے جارحیت کے باوجود بے حد صلح پسندانہ پالیسی برقرار رکھی۔ ان کے پائلٹ تک کو رہا کیا جس پر امریکہ اور دنیا بھر کی جانب سے سراہا گیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ اس کی مشرقی اور مغربی سرحدیں محفوظ رہیں۔ اور ہماری توجہ علاقے میں امن اور خوش حالی پر ہو۔ ایران کے ساتھ امریکہ کی کشیدگی اور کسی ممکنہ فوجی اقدام میں پاکستان کے ردعمل کے سوال پر وزیرخارجہ نے کہا کہ پاکستان مشورہ دے گا کہ افغانستان میں امن کے حصول کے لیے لازم ہے کہ امریکہ اور ایران کے درمیان کوئی مسلح تنازعہ نہ ہو اور معاملات کو افہام و تفہیم کے ساتھ حل کیا جائے۔
ایک سوال کے جواب میں شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور ملکی انٹیلی جینس آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل بھی اس دورے ساتھ آ رہے ہیں جہاں وہ اپنے ہم منصبوں کے ساتھ ملاقات کریں گے۔ ان کی وزیراعظم کے ساتھ آمد، ان کے بقول، یہ پیغام دیتی ہے کہ ملک کی فوجی اور سیاسی قیادت ایک صفحے پر ہے۔
وزیراعظم عمران خان کی امریکہ کے دورے میں مصروفیات کی تفصیلات بتاتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وزیراعظم اس دورے میں اتوار کو عالمی مالیاتی ادارے کے وفد سے ملاقات کریں گے، پھر صدر ورلڈ بینک سے ملاقات ہو گی۔ اس کے بعد کمیونٹی سے خطاب کریں گے جہاں 20 ہزار سے زائد افراد کی آمد متوقع ہے۔ اس خطاب کے بعد پاکستان بزنس سمٹ ہو گا۔
عمران خان 22 جولائی پیر کے روز صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کریں گے۔ یہ ملاقات ون آن ون ہو گی، بعد میں دیگر راہنما بھی شامل ہو جائیں گے۔ صدر ٹرمپ وزیراعظم عمران خان کو تاریخی روایت کے مطابق وائٹ ہاوس کا وزٹ کرائیں گے۔ تحائف کے تبادلے کے ساتھ یہ ملاقات اختام پذیر ہو گی۔ سہہ پہر میں امریکی اخبارات کے ایڈیٹرز کے ساتھ ملاقات ہو گی اور کچھ انٹرویوز ہوں گے۔
23 جولائی کو وزیر خارجہ مائیک پومپیو عمران خان سے ملاقات کریں گے۔ جس کے بعد عمران خان یونائیٹڈ سٹیٹ انسٹی ٹیوٹ آف پیس سے خطاب کریں گے۔ پھر کیپیٹل ہل پر سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے اراکین سے ملاقات کریں گے۔ یہیں پر پاکستان کاکسز میں شامل 40 سے زیادہ اراکین کانگریس سے بھی ملاقات ہو گی۔ وزیراعظم ہاؤس اسپیکر نینسی پلوسی سے ملیں گے۔
وزیراعظم اس دورے میں پاکستانی امیریکن بزنس کمیونٹی سے ملاقاتوں کے علاوہ اہم پاکستانی امریکن شخصیات سے بھی ملاقات کریں گے۔