پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنی حکومت کی ڈھائی سالہ کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ تاہم معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ معاشی اعشاریوں میں کچھ بہتری کے باوجود حکومت کو اب بھی کئی بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔
معاشی ماہر اور سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) کے سربراہ عابد قیوم سلہری کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم نے معیشت کے جو بعض اعشاریے بتائے ہیں وہ مثبت ہوئے ہیں جن میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر ریکارڈ سطح پر ہیں۔ البتہ بہت سے میدانوں میں اب بھی زیادہ بہتری دکھانے کی ضرورت ہے۔
عابد سلہری نے کہا کہ کرونا وبا کے بعد جو حالات ہیں ان میں اچھے یا برے اعشاریے بے معنی ہوجاتے ہیں۔ اس وقت اعشاریے کے بجائے یہ دیکھنا ہوگا کہ حکومت نے وہ کیا اقدامات اٹھائے ہیں جس سے لوگوں کی جانوں اور ان کے روزگار کو تحفظ ملا ہو۔
یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 25 ویں یومِ تاسیس کے موقع پر اپنے ایک بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ ان کی حکومت نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا ہے۔ جتنے مشکل حالات میں انہیں حکومت ملی کسی اور کو نہیں ملی۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ جب انہیں حکومت ملی تو ملک دیوالیہ ہو چکا تھا۔ اندرونی اور بیرونی قرضوں کا بڑا بوجھ اور ریکارڈ خسارہ تھا، بیرونی زرِمبادلہ کے ذخائر ختم ہو چکے تھے اور قرضوں کی قسطیں واپس کرنے تک کے پیسے نہیں تھے۔
SEE ALSO: پاکستان میں معاشی ٹیم کی بار بار تبدیلی، معیشت اور سرمایہ کاروں پر کیا اثر پڑے گا؟عمران خان کے اس بیان پر معاشی امور کے ماہر اور کالم نگار فرخ سلیم نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیرِ اعظم کی کچھ باتیں بالکل حقیقت پر مبنی ہیں۔ جن میں لارج اسکیل مینو فیکچرنگ (ایل ایس ایم) اور تعمیراتی سرگرمیوں میں تیزی آنا شامل ہے۔
فرخ سلیم نے کہا کہ حکومت یہ تو بتائے کہ ملک کی مجموعی ترقی کی شرح کیا ہے؟ کیوں کہ وہ ایک ایسا اعشاریہ ہے جس میں یہ تمام اعشاریے شامل ہوتے ہیں جس کا ذکر وزیرِ اعظم نے اپنی تقریر میں کیا تھا۔
ان کے بقول اگر حکومتی اعداد و شمار ہی کو تسلیم کرلیا جائے تو بھی ترقی کی شرح تین فی صد ہے جب کہ ملک میں آبادی کے بڑھنے کی شرح دو اعشاریہ دو پانچ فی صد کے قریب ہے۔
فرخ سلیم کہتے ہیں کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان نے رواں برس گندم، چینی اور کپاس درآمد کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت کی سمت بتانے یا معیشت کی موجودہ حالت بتانے کے لیے بڑے معیشت دانوں کی ضرورت نہیں بلکہ عام شہری سے ہی ان سوالات کے جواب با آسانی اس وقت مل جائیں گے جب ان سے یہ پوچھا جائے کہ اس وقت ان کی معاشی حالت کیا ہے؟
'عام آدمی کو کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس سے سے کوئی غرض نہیں'
فرخ سلیم کے بقول عام آدمی کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ہے یا منفی، مصنوعات سازی بڑھ رہی ہے یا گھٹ رہی ہے، تعمیرات کے شعبے میں بڑا چڑھاؤ دیکھا جا رہا ہے۔ اسے تو یہ فکر ہے کہ آٹے کی قیمتیں بڑھ گئیں، بجلی کے بل بڑھ گئے اور چینی مہنگی ہونے کے باوجود بھی نہیں مل پا رہی۔ عام آدمی کو ان سوالات کے جواب چاہئیں۔
عابد قیوم سلہری کے خیال میں اس وقت پاکستان کی معیشت کو سب سے بڑا چیلنج کرونا وبا کا ہے جس کا منفی اثر معیشت پر پڑنے کا خدشہ ہے۔ ان کے بقول نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے ان ممالک میں جن سے پاکستان تجارت کرتا ہے وہاں بھی بہتری نہ آئی تو اس کا خمیازہ بھی پاکستان کی معیشت کو بھگتنا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی معیشت کو دوسرا بڑا چیلنج موسمیاتی تبدیلی کا ہے جس کی وجہ سے زراعت بری طرح متاثر ہو رہی ہے بالخصوص کپاس کی پیداوار جس کا ہدف گزشتہ برس بھی پورا نہیں ہو سکا تھا۔
SEE ALSO: ویکسی نیشن مہم تیز نہ ہوئی تو پاکستان کی معیشت مزید متاثر ہو سکتی ہے: ماہرین کا انتباہعابد قیوم سلہری نے توانائی کے شعبے میں گردشی قرضوں کو بھی بڑا چیلنج قرار دیا ہے۔
ان کے بقول سوشل سیکٹر میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جسے اب احساس کا نام دیا گیا ہے، کی فنڈنگ گزشتہ دو برس میں دگنی ہو چکی ہے۔ اس پروگرام کے تحت شروع کیے گئے پائلٹ پراجیکٹس کو اب بڑے پیمانے پر لانے کی ضرورت ہو گی۔
وزیرِ اعظم نے کیا کہا تھا؟
وزیرِ اعظم عمران خان کا اپنی حکومتی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ حکومتی کوششوں اور سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین کی مدد سے پاکستانی معیشت کو سہارا ملا۔ ان کے بقول اگر ملک دیوالیہ ہو جاتا تو امریکی ڈالر کے مقابلے پاکستانی روپے کی قیمت 250 سے 300 ہوتی۔
وزیرِاعظم کے مطابق ملک کا بیرونی خسارہ ڈھائی سال میں پہلی بار سات، آٹھ ماہ سے سرپلس میں جا رہا ہے جو ان کی حکومت کی بڑی کامیابی ہے۔
ان کے بقول سیاحت کی ترقی، دس ارب درخت لگانے کا منصوبہ اور کئی سال بعد دو بڑے ڈیمز کی تعمیر بڑی کامیابیاں ہیں۔
انہوں نے ملک کے دو صوبوں میں ہیلتھ کارڈ کے ذریعے لوگوں کو صحت کی مفت سہولیات کی فراہمی کو بھی اپنی حکومت کی بڑی کامیابی قرار دیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
عمران خان کے بقول ملک میں تعمیراتی صنعت اور بڑے پیمانے پر اشیاء سازی کے شعبے تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں جب کہ ملک کے کسانوں کو پہلی بار ان کے دور میں خوشحالی ملی ہے کیوں کہ حکومت نے گنے اور گندم کی اچھی امدادی قیمت مقرر کی۔
انہوں نے اپنی حکومت کی آئندہ ترجیحات بتاتے ہوئے کہا کہ ملک دولت کی تخلیق سے آگے نکل سکتا ہے جس کے لیے پاکستان میں دو نئے شہر بنانے کا منصوبہ زیرِ غور ہے جہاں حکومتی پیسہ خرچ کیے بغیر غیر ملکی سرمایہ کاری سے شہر بسائے جائیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کی حکومت چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کو 50 سال بعد خاص مراعات دے رہی ہے تاکہ یہ زیادہ مضبوط ہوں اور بہتر پیداوار دے سکیں۔