پاکستان اور چین کی مشترکہ فوجی مشقیں کتنی اہم ہیں؟

فائل فوٹو

  • ماہرین کا کہنا ہے کہ خطے کی بدلتی صورتِ حال میں چین اور پاکستان کے درمیان دفاعی سطح پر تعاون میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
  • امریکہ اور مغرب کے ساتھ اعتماد میں کمی کے باعث حالیہ عرصے میں پاکستان کا فوجی اعتبار سے چین کے ساتھ تعاون بڑھ رہا ہے: تجزیہ کار محمد علی بیگ
  • چین کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقوں میں کوئی بڑی بات نہیں ہے: دفاعی تجزیہ کار لیفٹننٹ جنرل (ر) آصف یاسین ملک
  • اسلام آباد نے بیجنگ کو باور کرایا ہے کہ پاکستان کی فوج دہشت گردی سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے: تجزیہ کار محمد علی بیگ

اسلام آباد -- پاکستان اور چین کی انسدادِ دہشت گردی اور 'اسٹرائیک آپریشن' کی مشقیں تین ہفتے تک جاری رہنے کے بعد اختتام پذیر ہو گئی ہیں۔

پاکستان آرمی اور چینی 'پیپلز لبریشن آرمی' (پی ایل اے) کے درمیان یہ مشترکہ فوجی مشق 'واریئر-8' 19 نومبر سے 11 دسمبر تک جہلم کے قریب ٹلہ فیلڈ فائرنگ رینج میں جاری رہیں۔

یہ مشترکہ مشقیں ایسے وقت میں ہوئی ہیں جب پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور ان حملوں میں چینی شہریوں اور منصوبوں کو بھی ہدف بنایا گیا ہے۔

واضح رہے کہ آخری بار دونوں ملکوں نے 2019 میں مشترکہ انسدادِ دہشت گردی مشقیں کی تھیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ خطے کی بدلتی صورتِ حال میں چین اور پاکستان کے درمیان دفاعی سطح پر تعاون میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے جو کہ دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے علاوہ دونوں ممالک کی افواج کو ایک دوسرے کے عسکری نظام کو سمجھنے میں مدد دے گا۔

سابق سیکریٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل (ر) آصف یاسین ملک کہتے ہیں کہ چین کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقوں میں کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک معمول کا سالانہ عمل ہے جو پاکستان نیٹو، روس، امریکہ اور خلیجی ممالک کے ساتھ بھی کرتا رہتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ مشقیں ٹیکٹیکل اور آپریشنل سطح کی تھیں اور ان مشقوں کو پاکستان اور چین کے فوجی تعاون سے زیادہ نہیں دیکھا جانا چاہیے۔

وہ کہتے ہیں کہ دو طرفہ فوجی تعاون کے فروغ کے لیے ایسی مشقیں ماضی میں بھی ہوتی رہی ہیں۔

چینی امور کے ماہر محمد علی بیگ کہتے ہیں کہ امریکہ اور مغرب کے ساتھ اعتماد میں کمی کے باعث حالیہ عرصے میں پاکستان کا فوجی اعتبار سے ہمسایہ ملک چین کے ساتھ تعاون بڑھ رہا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مشترکہ فوجی مشقوں کا کوئی ایک مقصد نہیں ہوتا ہے بلکہ اس میں مختلف ماحول میں استعداد کو پرکھا جاتا ہے۔

محمد علی بیگ کے بقول دونوں ملکوں کے وسائل اور کلچر مختلف ہیں۔ پاکستان کی فوج زیادہ تر امریکی و مغربی اسلحہ اور فوجی نظام رکھتی ہے جو کہ چینی اسلحہ اور فوجی نظام سے زیادہ موافق نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایسی فوجی مشقیں ایک دوسرے کے اسلحے کو استعمال کرنے اور ایک دوسرے کے فوجی نظام کے ساتھ مطابقت پیدا کرنے میں مدد دیتی ہیں۔

'چین کی پاکستان میں سیکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی قابل عمل نہیں'

حالیہ عرصے میں چینی شہریوں پر حملوں کے بعد بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق بیجنگ نے اسلام آباد سے مطالبہ کیا ہے کہ چینی سیکیورٹی اہلکاروں کو پاکستان میں تعینات کرنے کی اجازت دی جائے۔ تاہم پاکستان نے ان رپورٹس کی تردید کی تھی۔

چین کی جانب سے اس مشترکہ مشق کا اعلان کیا گیا تو اسی دوران پاکستان نے 19 نومبر کو بلوچستان میں بڑے فوجی آپریشن کا اعلان کیا تھا۔

آصف یاسین ملک کہتے ہیں کہ یہ مشترکہ مشقیں پاکستان میں سی پیک کی حفاظت کے لیے نہیں تھیں۔ پاکستان کی فوج انسدادِ دہشت گردی کے حوالے سے بہترین تجربہ رکھتی ہے۔

آصف یاسین ملک کہتے ہیں کہ چین افغانستان میں پاکستان مخالف شدت پسند گروہوں کے خلاف مشترکہ آپریشن نہیں کرے گا کیوں کہ بیجنگ کا یہ مزاج اور سوچ نہیں ہے۔

SEE ALSO:

پاکستان روس رابطے: ماضی کے برعکس تعلقات میں گرم جوشی کیوں بڑھ رہی ہے؟پاکستان کے قرضوں میں اضافہ: 'بیرونی فنڈز پر انحصار قرض اتارنے میں بڑی رکاوٹ ہے'

انہوں نے کہا کہ چین پاکستان میں اپنے شہریوں اور منصوبوں کی حفاظت کے لیے چینی سیکیورٹی اہلکار تعینات کرنے کی بات کرتا ہے جو کہ قابلِ عمل نہیں ہے۔

ان کے بقول اگر چین کے سیکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی کے بعد بھی دہشت گردی کے واقعات ہوئے تو پھر کیا کیا جائے گا۔

محمد علی بیگ کے بقول اسلام آباد نے بیجنگ کو باور کرایا ہے کہ پاکستان کی فوج دہشت گردی سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے اور جہاں چینی شہریوں پر چند حملے ہوئے وہاں بڑی تعداد میں منصوبوں کو ناکام بھی بنایا گیا ہے۔

'چین کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف آپریشن میں عملی نہیں تیکنیکی تعاون کرے گا'

پاکستانی حکام ملک میں سیکیورٹی فورسز اور شہریوں پر عسکریت پسندوں کے حملوں میں ڈرامائی اضافے کا الزام ہمسایہ ملک افغانستان میں عسکریت پسند تنظیموں کی پناہ گاہوں کو قرار دیتے ہیں۔

پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے گزشتہ ماہ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ حملے پڑوسی ملک افغانستان میں "ٹی ٹی پی کی پناہ گاہوں" سے کیے جا رہے ہیں۔

افغانستان کی طالبان حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔

ایسے میں ذرائع ابلاغ میں ان دہشت گرد تنظیموں کے خلاف پاکستان اور چین کے مشترکہ آپریشن کی رپورٹس بھی ہیں۔

آصف یاسین ملک کہتے ہیں کہ چین افغانستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف پاکستان کے ساتھ مشترکہ آپریشن نہیں کرے گا کیوں کہ بیجنگ کا یہ مزاج اور سوچ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ چین پاکستان سے انٹیلی جینس معلومات کا تبادلہ اور تیکنیکی معاونت کر سکتا ہے۔ لیکن افغانستان میں براہِ راست ملوث نہیں ہو گا۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان چین سے توقع کرتا ہے کہ وہ افغان طالبان پر کالعدم ٹی ٹی پی کے حوالے سے دباؤ ڈالے۔ لیکن ان کی نظر میں بیجنگ کا کابل پر ابھی زیادہ اثر و رسوخ نہیں ہے۔

ان کے بقول چین کے افغانستان میں معاشی مفادات ہیں اور اس کا اثر و رسوخ بھی فی الحال معاشی معاملات کی حد تک ہے۔

محمد علی بیگ کہتے ہیں کہ پاکستان کو دفاعی اور انسداد دہشت گردی کے حوالے سے جو مدد امریکہ سے ماضی میں حاصل رہی ہے اس طرز پر بیجنگ اسلام آباد کو تعاون نہیں دے سکتا۔

چین کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان یو شیاو یانگ نے گزشتہ ماہ اسلام آباد کا دورہ کیا تھا جہاں رپورٹس کے مطابق پاکستانی حکام نے ان کے ساتھ افغانستان میں ٹی ٹی پی کی موجودگی اور اس سے علاقائی استحکام کو لاحق خطرات کے حوالے سے شواہد شیئر کیے تھے۔

اسلام آباد اور بیجنگ کی طرف سے اس بارے میں میڈیا رپورٹس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔

ملاقات کے بعد ایک مختصر بیان میں پاکستانی حکام کی جانب سے کہا گیا کہ افغانستان کی صورتِ حال بات چیت کا مرکز تھی۔ بیان کے مطابق پاکستان اور چین نے "پرامن اور مستحکم افغانستان کے لیے پڑوسی ممالک کے اہم کردار کا اعادہ کیا۔"