رسائی کے لنکس

پاکستان روس رابطے: ماضی کے برعکس تعلقات میں گرم جوشی کیوں بڑھ رہی ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

  • روس اور پاکستان کے تعلقات میں ماضی کی نسبت بہتری اور گرم جوشی کی اصل وجہ دنیا کے بدلتے حالات ہیں، سفارت کار
  • دنیا کے بدلتے ہوئے حالات میں پاکستان بھی اپنی خارجہ پالیسی کے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے، شمشاد احمد
  • یوکرین جنگ کے نتیجے میں روس پر عائد مغربی پابندیوں کی موجودگی میں حکومت ماسکو کے ساتھ تعلقات کو آگے لے جانے کے قابلِ عمل متبادل منصوبہ تلاش کر رہی ہے، سفارتی ذرائع
  • پاکستان اور روس کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے کا مقصد کسی بلاک یا ملک کے مفادات کو نقصان پہنچانا نہیں، وزیرِ توانائی اویس لغاری
  • ماضی میں پاکستان امداد اور قرضوں کے حصول کی کوشش کرتا رہا تھا۔ لیکن اب اس کی توجہ تجارت اور سرمایہ کاری پر دکھائی دیتی ہے، شمشاد احمد

کراچی _ پاکستان اور روس کے درمیان حالیہ عرصے کے دوران قربتیں بڑھی ہیں اور اب دونوں ملک رابطوں کے بعد تعاون کی منزلیں طے کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینے کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان آئندہ برس فریٹ ٹرین چلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ابتدائی طور پر یہ فریٹ ٹرین آزمائشی بنیادوں پر چلائی جائے گی۔ تاہم سفارتی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان تیزی سے چین کے ساتھ ساتھ روس سے بھی اپنے تعلقات استوار کر رہا ہے اور اس کے لیے وہ کسی بیرونی دباؤ کو خاطر میں لانے کے لیے تیار نظر نہیں آ رہا۔

پاکستان کے وفاقی وزیر برائے توانائی سردار اویس خان لغاری رواں ہفتے ماسکو کے سرکاری دورے پر تھے جہاں انہوں نے روس پاکستان بین الحکومتی کمیشن کے نویں اجلاس میں شرکت کی اور مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر تبادلۂ خیال کیا۔

اویس لغاری کے مطابق روس اور پاکستان تعلقات میں توسیع کے ساتھ ایک نئی مال بردار ٹرین لائن کے ذریعے منسلک ہونے والے ہیں اور اس راہداری کے ذریعے روس سے سامان ایران اور آذربائیجان کے راستے پاکستان پہنچے گا۔

اس سے قبل یہ خبریں بھی سامنے آئی تھیں کہ پاکستان نے بین الاقوامی 'نارتھ ساؤتھ کوریڈور' کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا ہے جو تقریباً 7200 کلومیٹر طویل تجارتی راہداری ہوگی اور یہ راہداری بحری جہازوں، ریل اور روڈ کے ذریعے منسلک ہوگی۔

ابتدائی طور پر اس راہداری کو بھارت سے سامان ایران تک سمندر کے راستے اور پھر وہاں سے سڑک اور ریل دونوں کے ذریعے آذربائیجان، روس، وسط ایشیائی ریاستوں اور یورپ تک منتقل کرنے کے طور پر دیکھا جارہا تھا۔

تاہم ابھی یہ واضح نہیں کہ اس روٹ میں پاکستان کو کیسے اور کب شامل کیا جائے گا۔ البتہ اس روٹ سے نہ صرف سامان کی ترسیل کی قیمت کم ہونے کے اندازے ہیں بلکہ اسے سوئز کینال کی راہداری کے متبادل کے طور پر بھی پیش کیا جا رہا ہے۔

'پاکستان روس تعلقات سے مغرب کو ناراض نہیں ہونا چاہیے'

وزیرِ توانائی اویس لغاری نے روسی ٹی وی کو دیے گئے اپنے ایک حالیہ انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ پاکستان اور روس کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے کا مقصد کسی بلاک یا ملک کے مفادات کو نقصان پہنچانا نہیں۔

ان کے بقول پاکستان روس سے تعلقات کی بہتری اپنے ہی مفادات کے تابع کر رہا ہے تاکہ دونوں ملکوں کے عوام کو اس کے باہمی فوائد مل سکیں۔ اس لیے پاکستان روس تعلقات پر مغرب کو ناراض نہیں ہونا چاہیے۔

سرد جنگ کے دور کے خاتمے تک اور بعد میں بھی پاکستان کو روس کے مقابلے میں امریکہ اور مغربی ممالک کا اہم اتحادی سجھا جاتا تھا۔ لیکن حالیہ چند برسوں میں اسلام آباد کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان اور روس کے تعلقات ماضی کے بالکل برعکس دکھائی دیتے ہیں۔

پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ اور سفارت کار شمشاد احمد کے مطابق روس اور پاکستان کے تعلقات میں ماضی کی نسبت بہتری اور گرم جوشی کی اصل وجہ دنیا کے بدلتے حالات ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ممالک کی خارجہ پالیسیاں روز کی بنیاد پر نہیں بدلتیں بلکہ اس میں اتار چڑھاؤ وقت کے ساتھ آتے ہیں اور دنیا کے بدلتے ہوئے حالات میں پاکستان بھی اپنی خارجہ پالیسی کے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔

ان کے بقول، جس طرح چین کے ساتھ تعلقات کو پاکستان نے اہمیت دی اسی طرح اب امریکی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر روس سے بھی تعلقات بہتر اور گہرے بنائے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ یوکرین جنگ کے نتیجے میں روس پر امریکہ اور یورپی یونین کی پابندیوں کی موجودگی میں اسلام آباد، ماسکو کے ساتھ کاروباری اور تجارتی تعلقات کو مزید آگے لے جانے کے قابل عمل متبادل منصوبہ تلاش کر رہا ہے۔

دوسری جانب حکومتِ پاکستان کی یہ کوشش بھی ہے کہ وہ سی پیک منصوبے کے تحت مختلف اہم سڑکوں کی تعمیر اور ریلوے لائن کی اپ گریڈیشن منصوبوں کے لیے روسی فنڈنگ حاصل کر سکے۔ فی الحال اس جانب کوئی ٹھوس پیش رفت نظر نہیں آتی۔

پاکستان اور روس کے درمیان اس وقت تجارتی حجم بمشکل ایک ارب ڈالر ہے۔ تاہم دونوں ملکوں کے درمیان حال ہی میں بارٹر ٹریڈ بھی شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

روس کے نائب وزیرِ اعظم نے گزشتہ ماہ پاکستان کا دورہ کیا تھا جس کے بعد پاکستان سے تاجروں کا ایک وفد روس گیا تھا جہاں دونوں ملکوں کے درمیان بارٹر ٹریڈ کے حوالے سے ایک معاہدے پر دستخط ہوئے تھے۔

گزشتہ ماہ کے آخر میں روس کے اتحادی ملک بیلاروس کے صدر نے بھی اسلام آباد کا دورہ کیا تھا۔ بعض تجزیہ کاروں کے خیال میں یہ پیش رفت اسلام آباد کے روس اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ اپنے تعلقات پر بڑھتے ہوئے زور کی نشاندہی اور پاکستان کی علاقائی سفارت کاری کے ایک نئے باب کی نشاندہی کرتی ہے۔

سفارت کار شمشاد احمد کے مطابق روس دنیا میں اپنے تعلقات کی نئی سمت بندی کر رہا ہے اور اس منظر نامے میں اسے اسلام آباد سے بہتر تعلقات موزوں دکھائی دے رہے ہیں۔

ڈاکٹر شمشاد نے کہا کہ پاکستان اور روس کے تعلقات کی مثبت بات یہ ہے کہ وہ معاشی، اقتصادی، مالی اور تجارتی فوائد سمیٹنے کے اردگرد دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان کی سفارت کاری میں یہ ایک بڑی تبدیلی ہے کیوں کہ اس سے قبل پاکستان امداد اور قرضوں کے حصول کی کوشش کرتا تھا۔ لیکن اب اس کی توجہ کسی حد تک تجارت اور سرمایہ کاری پر دکھائی دیتی ہے۔

پاکستان کے دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان روس بین الحکومتی کمیشن برائے تجارت، اقتصادی، سائنسی اور تکنیکی تعاون کے نویں اجلاس میں فریقین نے دوطرفہ تعاون کو بڑھانے کے علاوہ پاکستان اور روس کے درمیان فضائی رابطوں کو بڑھانے پر بھی تبادلۂ خیال کیا تھا۔

دفتر خارجہ کے مطابق فریقین نے توانائی، تعلیم، ادویات، تجارت، علمی اور تکنیکی تبادلوں اور صنعتی تعاون کے شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کے لیے آٹھ دوطرفہ دستاویزات پر بھی دستخط کیے تھے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG