|
لاہور -- آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے کورٹ مارشل اور چارج شیٹ کا معاملہ پاکستان میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اس سے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی مشکلات بھی بڑھیں گی جب کہ بعض مبصرین اسے فوج کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہیں۔
خیال رہے کہ پاکستان فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) نے ایک بیان میں بتایا تھا کہ سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی اور نو مئی سے جڑے واقعات پر جنرل فیض حمید کو چارج شیٹ کیا گیا ہے۔
پی ٹی آئی مخالف سیاسی جماعتیں یہ الزام عائد کرتی رہی ہیں کہ پی ٹی آئی کو جنرل فیض حمید کی پشت پناہی حاصل تھی۔ تاہم پی ٹی آئی ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔
کیا لیفٹننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف چارج شیٹ سے تحریکِ انصاف کی مشکلات بڑھیں گی؟ کیا عمران خان کو بھی اس کا نقصان ہو گا؟ اس معاملے پر وائس آف امریکہ نے تجزیہ کاروں سے گفتگو کی ہے۔
'سیاسی اثرات تو ضرور ہوں گے'
سینئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ جنرل فیض پر الزامات ایک طرح سے تحریکِ انصاف کے خلاف بھی چارج شیٹ ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ وہ یقین سے تو کچھ نہیں کہہ سکتے کہ کیا ہو گا لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی اثرات تو ضرور سامنے آئیں گے۔
سہیل وڑائچ کے بقول یوں لگ رہا تھا کہ جنرل فیض نے اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز خواہ وہ اہلِ سیاست تھے، چاہے فوجی تھے چاہے جج تھے سب کو 'بلڈوز' کرنے کی کوشش کی۔
تحریکِ انصاف کے رہنما شیر افضل مروت نے منگل کی شب جیو نیوز کے پروگرام 'آج شاہزیب خانزادہ' میں کہا تھا کہ تحریکِ انصاف کو جنرل باجوہ سے زیادہ جنرل فیض نے نقصان پہنچایا۔
اُن کا کہنا تھا کہ آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز سے یہ تاثر ملتا ہے کہ فیض حمید کے معاملات سے پاکستان تحریکِ انصاف کی جان چھوٹنے والی نہیں ہے۔
دفاعی تجزیہ کار لیفٹننٹ جنرل (ر) غلام مصطفٰی کہتے ہیں کہ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف چارج شیٹ سے واضح ہوتا ہے کہ اُن کا ایک سیاسی جماعت کی جانب جھکاؤ تھا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ چارج شیٹ سے یہ بھی لگتا ہے کہ جنرل فیض نے ذاتی حیثیت میں اور ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے اپنی حدود سے تجاوز کیا۔
خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) سمیت پی ٹی آئی کی حریف سیاسی جماعتیں یہ الزام عائد کرتی رہی ہیں کہ عمران خان، جنرل فیض کے ساتھ مل کر 10 سالہ منصوبہ بندی کر رہے تھے جس میں جنرل فیض کو آرمی چیف بنانے کا وعدہ بھی شامل تھا۔
جنرل فیض حمید سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے دور میں خفیہ ایجنسی 'آئی ایس آئی' کے سربراہ تھے۔ تاہم 2021 میں اُنہیں کور کمانڈر پشاور تعینات کر کے لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم کو ڈی جی آئی ایس آئی بنا دیا گیا تھا۔
عمران خان کئی انٹرویوز میں یہ کہہ چکے ہیں کہ ملکی حالات، افغانستان کی صورتِ حال اور دیگر معاملات کی وجہ سے وہ فیض حمید کو آئی ایس آئی کا سربراہ برقرار رکھنا چاہتے تھے۔ بعض ماہرین کے مطابق یہیں سے عمران خان اور فوج کے درمیان دُوریوں نے جنم لیا۔
'ماضی میں بھی مداخلت کے الزامات لگتے رہے ہیں'
ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہان جنرل (ر) جاوید ناصر اور جنرل (ر) اسد درانی دونوں کو اُن کی مدتِ ملازمت سے قبل ہی اُن کے عہدوں سے ہٹایا گیا تھا۔ دونوں پر ہی مختلف اوقات میں سیاسی مداخلت کے الزامات لگتے رہے ہیں۔
لیفٹننٹ جنرل (ر) غلام مصطفیٰ کہتے ہیں کہ جنرل فیض حمید کے خلاف انکوائری مکمل ہو چکی ہے اور اب کورٹ مارشل کا آغاز ہو گیا ہے۔
جنرل غلام مصطفٰی کے بقول نئے قوانین کے مطابق فیض حمید کو ملٹری کورٹ کوئی سزا دیتی ہے تو وہ سویلین عدالتوں میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کر سکتے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ اب عملی طور پر جنرل فیض کا کورٹ مارشل شروع ہو گیا ہے اور فیض حمید وکیل کے ذریعے اپنا دفاع بھی کر سکیں گے۔ لیکن فوج میں جب کورٹ مارشل کی کارروائی شروع ہوتی ہے تو پھر وہ فیصلے پر ہی ختم ہوتی ہے۔
کیا فیض حمید کو معافی مل سکتی ہے؟
لیفٹننٹ جنرل (ر) جنرل غلام مصطفٰی بتاتے ہیں کہ جنرل فیض کا کیس جب مکمل ہو جائے گا اور فوجی عدالت اِس کا فیصلہ دے دے گی تو کیس آرمی چیف کے پاس چلا جائے گا۔
اس کے بعد آرمی چیف کے پاس اختیار ہو گا کہ وہ فیض حمید کو معافی دے سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے فیض حمید کو اپنی سزا کے خلاف آرمی چیف کو معافی کی درخواست دینا ہو گی۔
فورم