’’مجھ پر صرف ایک کیس بننا باقی رہ گیا ہے، جو اس حکومت نے نہیں بنایا کہ روٹی چائے میں ڈبو کر کیوں کھاتا ہے۔‘‘ یہ کہنا تھا عمران خان کا جو اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے موقع پر کمرہٴ عدالت میں صحافیوں سے غیر رسمی بات چیت کر رہے تھے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ کسی بھی سیاست دان کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہوں البتہ جرائم پیشہ افراد کے ساتھ بات کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
اسی دوران ججز کی آمد کا اعلان ہوا اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان اپنی نشست سے کھڑے ہوگئے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں توہینِ عدالت کیس میں سماعت کے موقع پرعمران خان جب عدالت پہنچے تھے تو صحافیوں نے ایک بار پھر انہیں گھیر لیا تھا۔ صحافیوں کی جانب سے عمران خان سے سوالات کیے جاتے رہے جب کہ وہ صحافیوں کے سوالوں پر مسکراتے رہے اور کسی کسی سوال پر جواب بھی دیتے رہے۔
اسمبلیوں میں واپسی کے ایک سوال پر عمران خان نے دوٹوک جواب دیتے ہوئے کہا کہ تحریکِ انصاف اسمبلی میں واپس نہیں جائے گی۔
سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی صاحب زادی اور مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کو پاسپورٹ واپس ملنے کے سوال پر عمران خان نے کہا کہ یہ واضح ہو گیا ہے کہ اس ملک میں قانون کی حکمرانی نہیں ہے، جس طرح چوروں کو دوسری بار این آر او دیا جا رہا، اس سے عوام مایوس ہیں۔
ان سے سوال ہوا کہ آپ سیاست دانوں سے بات کیوں نہیں کرتے؟ اس پر سابق وزیرِ اعظم نے کہا کہ ہم سیاسی لوگ ہیں۔ سیاسی لوگ بات ہی کرتے ہیں، بندوق نہیں اٹھاتے۔ بات سیاسی لوگوں سے ہی ہوگی مجرموں کے ساتھ نہیں ۔
SEE ALSO: دہشت گردی کا مقدمہ؛ عمران خان کی ضمانت میں مزید آٹھ دن کی تو سیع
آرمی چیف جنرل باجوہ کے ساتھ ایوان صدر میں ہونے والی مبینہ ملاقات کے حوالے سے عمران خان سے صحافیوں نے سوال کیا کہ آپ کلمہ پڑھ کر ہمیشہ بول دیتے ہیں آج بھی بول دیں۔ دوسرے صحافی نے کہا کہ کیا آپ کو کہنا چاہیے تھا کہ جھوٹ بولنا نہیں چاہتا اور سچ بول نہیں سکتا؟ اس پر عمران خان نے کہا کہ عقل مندی یہی ہے جب بات ہو رہی ہو، تو اس پر بیان نہ دیا جائے۔
صحافیوں نے عمران خان سے ان کی ٹیلی تھون میں جمع ہونے والی امداد پر بھی سوال کیا جس پر عمران خان نے کہا کہ جمع ہونے والی رقم ہفتے کے روز سے لوگوں میں تقسیم ہو گی اور سب صوبوں میں تقسیم کی جائے گی۔
جب عدالت میں کارروائی شروع ہوئی تو عمران خان کے وکیل حامد خان روسٹرم پر آئے اور کہا کہ نیا بیان حلفی بھی جمع کرا دیا گیا ہے۔
اس پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہم نے پڑھ لیا ہے، اس کے علاوہ کچھ اور کہنا ہے آپ کو؟؟
حامد خان نے کہا کہ عمران خان جج زیبا چوہدری کی عدالت میں بھی گئے تھے۔
SEE ALSO: 'توہینِ عدالت کا سوچ بھی نہیں سکتا، غیر ارادی طور پر منہ سے نکلے الفاظ پر افسوس ہے'
اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہمیں معلوم ہے اور اب تک کے عمران خان کے کنڈکٹ اور پیش کیے گئے بیان حلفی سے عدالت مطمئن ہے۔ اس لیے عدالت متفقہ طور پر توہینِ عدالت کی کارروائی سے انہیں ڈسچارج کر رہی ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ بادی النظر میں یہ توہینِ عدالت تھی، تاہم عمران خان کے رویے کو دیکھتے ہوئے ان کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی ختم کی جا رہی ہے۔ عمران خان کا ضلعی عدالت جانا اور یہاں پر معافی مانگنا بہتر ہے۔
اس موقع پر عمران خان کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی اور ان کے ساتھی انہیں کمرہٴ عدالت میں ہی مبارک باد دینے لگے۔
اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل منوراقبال دوگل آگے بڑھے اورعدالت سے کہا کہ عمران خان کی طرف سے غیر مشروط معافی نہیں مانگی گئی۔ ماضی میں ایسے کیسز میں ملزمان کو سخت سزائیں سنائی گئیں، جن میں نہال ہاشمی اور طلال چوہدری سمیت کئی کیسز شامل ہیں۔
SEE ALSO: عمران خان عدالتوں سے ریلیف کی امید نہ رکھیں: اسلام آباد ہائی کورٹاس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ان سے استفسار کیا کہ کیا آپ ان فیصلوں کی حمایت کرتے ہیں؟
اس پر منور اقبال دوگل نے کہا کہ یہ سپریم کورٹ کے فیصلے ہیں اور ہم پابند ہیں، میری حمایت کرنے کا سوال نہیں ہے۔
اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کی سفارشات تحریری فیصلے میں لکھیں گے، آپ تحریری معروضات جمع کرا دیں۔
اس کے ساتھ ہی عدالتی کارروائی ختم ہوئی اور ججز کے اٹھ جانے کے بعد عمران خان عدالت سے باہر آئے۔ جہاں ان کی سیکیورٹی اور صحافیوں نے انہیں نرغے میں لےلیا۔
عمران خان نے چند جملوں میں عدالت کی تعریف کی اور گاڑی میں سوار ہو کرروانہ ہو گئے۔
SEE ALSO: رپورٹر ڈائری: توہین عدالت کیس میں عمران خان نے ساری کارروائی بغور سنی
تحریکِ انصاف کے رہنما شہباز گل کی گرفتاری کے خلاف اسلام آباد کے سیکٹر ایف نائن میں 20 اگست کو منعقد ریلی کے دوران خاتون جج کو دھمکی دینے پر گزشتہ ماہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی شروع کی تھی۔
عمران خان نے اس بارے میں جوبیان حلفی عدالت میں جمع کرایا تھا اس پر عدالت نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے ان کے خلاف 22 ستمبر کو فردجرم عائد کرنے کا اعلان کیا تھا البتہ 22 ستمبر کی سماعت میں عمران خان نے جج زیبا چوہدری سے متعلق دیے گئے بیان پر خاتون جج کے پاس جاکر معافی مانگنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس پر عدالت نے ہدایت کی کہ عمران خان معافی سے متعلق ایک ہفتے کے اندر بیان حلفی جمع کرا دیں، خاتون جج کے پاس جانا یا نہ جانا ان کا ذاتی فیصلہ ہوگا۔
عدالت نے ان کے خلاف فرد جرم کی کارروائی بھی مؤخر کردی تھی۔
گزشتہ ہفتے 30 ستمبر کو عمران خان اپنے بیان پر معافی مانگنے کے لیے خاتون ایڈیشنل اینڈ سیشن جج زیبا چوہدری کی عدالت بھی پہنچے تھے، تاہم ان کی جج سے ملاقات نہیں ہوسکی تھی۔ وہاں انہوں نے جج زیبا چوہدری کے عملے سے کہا تھا کہ جج کو بتایے گا کہ عمران خان معذرت کرنے کے لیے آئے تھے۔
یکم اکتوبر کو عمران خان نے ایک اور بیان حلفی جمع کرایا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ عدالت میں کیس کی کارروائی کے دوران مجھے احساس ہوا کہ شاید میں نے 20 اگست 2022 کو عوامی جلسے میں تقریر کرتے ہوئے ریڈ لائن کراس کی۔ میرا مقصد کبھی ججوں کو دھمکی دینا نہیں تھا، نہ ہی اس بیان کے پیچھے قانونی کارروائی کے سوا کوئی ارادہ تھا۔اگر جج کو یہ تاثر ملتا ہے کہ میں نے لائن کراس کر دی تھی، تو میں معافی مانگنے کے لیے تیار ہوں۔
بیان حلفی میں عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ میں عدالت کو یقین دلاتا ہوں کہ مستقبل میں ایسا کچھ نہیں کروں گا جو کسی بھی عدالت بالخصوص ماتحت عدلیہ کے وقار کو ٹھیس پہنچائے۔
اس بیان حلفی کے بعد عدالت نے ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ختم کی ہے۔