انسانی حقوق کے کارکن ادریس خٹک کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمے کی سماعت روکنے کی درخواست پشاور ہائی کورٹ سے مسترد ہونے کے بعد اُن کے اہل خانہ اور وکلا نے سپریم کورٹ سے رُجوع کا فیصلہ کیا ہے۔
ادریس خٹک کے قریبی رشتہ داروں نے ابھی تک پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے پر کسی قسم کے ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا۔ مگر ان کے قریبی ساتھی اور پاکستان نیشنل پارٹی کے رہنما قیصر خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہائی کورٹ کے فیصلے سے اُنہیں مایوسی ہوئی ہے۔ لہذٰا اب وہ اس کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل دائر کریں گے۔
پشاور ہائی کورٹ نے پیر کو ادریس خٹک کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کے خلاف دائر درخواست خارج کر دی تھی۔
عدالتِ عالیہ نے ادریس خٹک کو عدالت کے سامنے پیش کرنے کی استدعا بھی مسترد کر دی۔
نیشنل پارٹی کے سینئر رہنما اور انسانی حقوق کے کارکن ادریس خٹک کو نومبر 2019 میں صوابی کے قریب سے نامعلوم افراد نے اغوا کیا اور اس کے سات ماہ کے بعد ان کے بارے میں پشاور ہائی کورٹ کو آگاہ کیا گیا کہ ان کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کی جا رہی ہے۔
ادریس خٹک نے رشتہ داروں کے ذریعے ان کی گرفتاری اور فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جو سابق مرحوم چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کر لی تھی۔
SEE ALSO: جبری گمشدگیوں کے خلاف مارچ، مظاہرین کو سندھ سے پنجاب میں داخل ہونے سے روک دیا گیاپشاور ہائی کورٹ میں ادریس خٹک کی پیروی کرنے والے وکلا میں شامل طارق افغان ایڈوکیٹ نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ادریس خٹک کو پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ہے اس لیے عدالت نے دونوں درخواستیں خارج کر دی ہیں۔
طارق افغان ایڈوکیٹ نے کہا کہ ادریس خٹک ایک سال سے پابند سلاسل ہیں۔ لہذٰا ہم پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے۔
پشاور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے ادریس خٹک کی درخواست سماعت کے لیے منظور کرتے وقت اُن کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کو خلافِ قانون قرار دیا تھا۔
مرحوم چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کا کہنا تھا کہ ادریس خٹک کبھی بھی فوجی اداروں سے منسلک نہیں رہے۔ لہذٰا بطور سویلین فوجی عدالت میں اُن کے خلاف مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔
نومبر 2019 میں اسلام آباد سے واپس گھر آتے ہوئے صوابی انٹرچینج کے پاس چند سادہ لباس میں ملبوس افراد ادریس خٹک کو ان کی گاڑی اور ڈرائیور سمیت زبردستی ساتھ لے گئے تھے۔ ایک روز بعد ان کے ڈرائیور کو چھوڑ دیا گیا تھا۔
ان کے لاپتا ہونے کے چند روز بعد بعض افراد ان کے گھر آئے اور ان کا ذاتی لیپ ٹاپ لے گئے۔ اسی دن ادریس خٹک نے بیٹی کو ٹیلی فون پر لیپ ٹاپ مذکورہ افراد کے حوالے کرنے کا کہا۔
چوبیس نومبر 2019 کو ادریس خٹک کی بازیابی کے لیے پشاور ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کی گئی تھی۔
گزشتہ سال جون میں ان کے اہلِ خانہ کو بتایا گیا کہ وہ پاکستانی فوج کی ملٹری انٹیلی جنس ایجنسی کی تحویل میں ہیں اور ان پر 1923 کے سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہے جس کے بعد ان کے اہلِ خانہ نے پشاور ہائی کورٹ سے دوبارہ رجوع کیا۔
ادریس خٹک کے وکلا نے درخواست میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ کسی بھی سویلین کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ نہیں چل سکتا جب کہ فوجی عدالتوں کی میعاد میں بھی تاحال توسیع نہیں ہوئی۔
قانونی ماہرین کے مطابق آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت ملزم پر جرم ثابت ہونے پر عمر قید یا دس سال کی سزا ہو سکتی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کی دیگر تنظیمیں بھی ادریس خٹک کی بازیابی کے مطالبات کرتی رہی ہیں۔
اس معاملے پر پاکستانی حکام کا یہ مؤقف رہا ہے کہ یہ معاملہ عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔ لہذٰا آئین اور قانون کے تقاضے پورے کیے جائیں گے۔
ادریس خٹک کون ہیں؟
ادریس خٹک نے روس سے اینتھروپالوجی میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے اور بطور محقق ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ کے ساتھ منسلک رہے ہیں۔
ادریس خٹک کی تحقیق کا ایک بڑا حصہ سابقہ فاٹا، خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے جبری طور پر لاپتا افراد رہے ہیں جب کہ وہ سماجی کارکن کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔