رسائی کے لنکس

جبری گمشدگیوں کے خلاف مارچ، مظاہرین کو سندھ سے پنجاب میں داخل ہونے سے روک دیا گیا


سندھ پولیس نے بدھ کی شام مارچ کے شرکا کے خلاف اس وقت کارروائی کی جب وہ صوبے کے آخری قصبے اوباڑو سے پیدل پنجاب میں داخل ہونا چاہتے تھے۔
سندھ پولیس نے بدھ کی شام مارچ کے شرکا کے خلاف اس وقت کارروائی کی جب وہ صوبے کے آخری قصبے اوباڑو سے پیدل پنجاب میں داخل ہونا چاہتے تھے۔

لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے کراچی سے راولپنڈی تک جانے والے پیدل مارچ کو سندھ پولیس نے پنجاب میں داخل ہونے سے روکا اور بعض شرکا کو گرفتار بھی کیا گیا۔

مارچ کے شرکا پر الزام ہے کہ انہوں نے نقصِ امن کے تحت سڑکوں کو بلاک کیا اور ریاست مخالف نعرے لگائے۔

سندھ پولیس نے بدھ کی شام مارچ کے شرکا کے خلاف اس وقت کارروائی کی جب وہ صوبے کے آخری قصبے اوباڑو سے پیدل پنجاب میں داخل ہونا چاہتے تھے۔

قافلے کے شرکا کا کہنا تھا کہ سندھ پولیس نے پنجاب میں داخلے سے دن بھر روکے رکھا۔ رات ہوتے ہی پولیس اور سادہ لباس میں ملبوس اہل کاروں نے احتجاجی کیمپ میں موجود تین درجن سے زائد مرد و خواتین کو حراست میں لیا اور مقامی تھانے میں بند کر دیا۔

رات گئے مارچ میں شریک خواتین کو رہا کر دیا گیا۔ لیکن مارچ کی قیادت کرنے والے انعام عباسی سمیت دیگر افراد کو گرفتار کر کے مٹیاری، ہالا اور بھٹ شاہ پولیس کے حوالے کر دیا گیا، جہاں ان کے خلاف سرکار کی مدعیت میں نقصِ امن اور ریاست مخالف سرگرمیوں کے الزامات کے تحت مقدمات درج کیے گئے۔

مارچ میں شریک شازیہ چانڈیو کا کہنا تھا کہ لاپتا افراد کی بازیانی کے لیے ہونے والا پیدل مارچ مکمل طور پر پرامن تھا جس کا مقصد سندھ سے جبری طور پر لاپتا افراد کے معاملے کو اجاگر کرنا تھا۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ ان کے بھائی عاقب چانڈیو کو چھ ماہ قبل سیکیورٹی اداروں نے گرفتار کیا تھا، جس کے بعد سے ان کی کوئی خبر نہیں ملی۔ انہیں کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔

ان کے مطابق عاقب چانڈیو کی گمشدگی سے متعلق سندھ ہائی کورٹ میں آئینی درخواست بھی دائر کی گئی ہے۔ عاقب چانڈیو کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس سے پہلے بھی وہ کافی عرصے تک لاپتا رہے۔ جون میں انہیں ایک بار پھر مبینہ طور پر سیکیورٹی اداروں نے حراست میں لیا تھا۔

شازیہ چانڈیو نے بتایا کہ سندھ بھر سے 80 کے قریب افراد اب تک لاپتا ہیں اور ان کی تعداد میں گزشتہ چند برسوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس مارچ کا مقصد لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے کوششیں کرنا اور ان کی بازیابی ممکن بنانا تھا۔

مارچ کے شرکا نے نومبر میں صوبائی دارالحکومت کراچی سے پیدل سفر شروع کیا تھا۔ وہ اپنا احتجاج راولپنڈی میں فوج کے جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) کے سامنے ریکارڈ کرانا چاہتے تھے۔ لیکن انہیں اس مقصد کے لیے سندھ سے نکلنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

مارچ کے شرکا کی گرفتاری پر اب تک سندھ حکومت کا کوئی موقف سامنے نہیں آیا۔ جب کہ صوبائی وزیرِ اطلاعات نے رابطہ کرنے پر بھی مؤقف نہیں دیا۔

مارچ کے شرکا نے اوباڑو پریس کلب کے باہر بھی اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کیا۔

'حکومت کو سنگین مسئلے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے'

انسانی حقوق کمیشن کی کونسل ممبر اور سابق چیئر پرسن ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان زہرہ یوسف کے خیال میں حکومت کو اس سنگین انسانی مسئلے پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اور ایسے لوگ جن کے پیارے لاپتا ہوں، انہیں گرفتار کرنا قابل مذمت ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ افسوس اس بات کا ہے کہ جو لوگ اس جرم کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں انہیں بھی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور انہی کو اٹھا لیا جاتا ہے جیسے ادریس خٹک اور دیگر کئی کیسز میں ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس گھناؤنے فعل اور انسانی حقوق کی بد ترین پامالی میں ملوث ملزمان کے خلاف کارروائی، انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانے اور ان کے احتساب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔

زہرا یوسف کا کہنا تھا کہ ریاست نے جبری گمشدگی کی حقیقت کو تو تسلیم کر لیا ہے اور سپریم کورٹ کے حکم پر جبری گمشدگی پر تحقیقات کرنے کے لیے کمیشن بھی قائم کیا گیا ہے۔ مگر اس کا فائدہ سامنے نہیں آیا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

انسانی حقوق کی سابقہ چیئر پرسن کے مطابق اگرچہ تحریک انصاف کی حکومت کی وزیر برائے انسانی حقوق کی جانب سے جبری گمشدگی کو جرم قرار دینے کے لیے قانون لانے کا اعلان تو کیا گیا تھا، لیکن اسے اب تک عملی جامہ نہیں پہنایا گیا۔

ملک بھر میں رواں سال مزید 55 افراد لاپتا ہوئے: ڈیفنس آف ہیومن رائٹس

لاپتا افراد کی بازیابی اور متاثرین کو قانونی مدد فراہم کرنے والی سرگرم تنظیم ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک بھر میں رواں سال مزید 55 افراد لاپتا ہوئے۔

اس طرح اس تنظیم کے مطابق اب لاپتا افراد کی تعداد 2 ہزار 789 ہو چکی ہے۔ جب کہ دو ایسے افراد کی اموات بھی ریکارڈ کی گئی جن کے خاندان نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ جبری گمشدہ تھے۔

کراچی: جبری گمشدگیوں کا معاملہ، انوکھا مظاہرہ
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:27 0:00

رپورٹ کے مطابق اس ضمن میں جزوی کامیابی چھ افراد کی بازیابی کی صورت میں سامنے آئی، جن کے لیے تنظیم نے آواز اٹھائی تھی۔

تنظیم نے مطالبہ کیا ہے کہ ملک میں جبری گمشدگی کو جرم قرار دینے کے لیے قانون لایا جائے اور اس عمل کو ہر صورت میں روکا جائے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG