|
پشاور _ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم کے مرکزی قصبے پاڑہ چنار سے پشاور اور دیگر علاقوں کو ملانے والی سڑکوں کی بندش کو 18 روز ہو گئے ہیں۔ سڑکوں کی بندش سے اپر اور سنٹرل کرم کے لوگوں کو اشیائے خور و نوش، تیل اور اسپتالوں میں ضروری ادویات کی قلت کا سامنا ہے۔
ضروری ادویات اور علاج معالجے کی سہولیات میں خلل کے سبب ڈاکٹروں کے مطابق اب تک آٹھ بچوں سمیت لگ بھگ 12 مریض دم توڑ چکے ہیں۔
کرم میں تمام سرکاری تعلیمی ادارے گزشتہ ماہ سے بند ہیں۔ تاہم پیر سے نجی تعلیمی ادارے بھی بند کر دیے گئے ہیں۔
افغانستان سے ملحقہ ضلع کرم کو حساس علاقہ قرار دیا جاتا ہے جہاں ماضی میں کئی بار فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ چکے ہیں۔
گزشتہ ماہ 20 ستمبر کو ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے بعد مقامی انتظامیہ نے مسافروں کو کانوائے کی شکل میں مرکزی شاہراہ سے لانا لے جانا شروع کیا تھا۔ لیکن 12 اکتوبر کو نستی کوٹ کے مقام پر مسلح ملزمان نے کانوائے میں شامل مسافر گاڑیوں پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت 17 افراد ہلاک اور 10 زخمی ہو گئے تھے۔
مذکورہ واقعے کے بعد انتظامیہ نے پاڑہ چنار کو ملانے والی اس اہم شاہراہ کو بند کر دیا تھا۔ تاہم سڑک کی بندش کے باعث مکینوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
ڈپٹی کمشنر کرم جاوید اللہ محسود نے رابطے پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ضلع کرم میں بارہ اکتوبر کے واقعے کے بعد سیکیورٹی خدشات اور قیامِ امن کے لیے مختلف سڑکوں کو بند کیا ہے۔
کرم کے ضلعی پولیس افسر احمد شاہ کا کہنا ہے کہ بارہ اکتوبر کے واقعے میں لگ بھگ 100 افراد کو حراست میں لیا ہے جب کہ سوشل میڈیا پر مذہبی منافرت پھیلانے کے الزام میں سدہ سے چار اور پاڑہ چنار سے تین افراد گرفتار کیے جا چکے ہیں۔
پاڑہ چنار کے قبائلی رہنما طارق خان نے بتایا ہے کہ بارہ اکتوبر کے واقعے میں مبینہ طور پر ملوث 62 افراد اب تک گرفتار نہیں ہو سکے، جن کی گرفتاری کے لیے قبائل پر دباؤ بڑھانے کے لیے سڑکیں بند کی گئی ہیں۔
'امن معاہدہ ہونے پر راستے کھل جائیں گے'
دوسری جانب ضلعی پولیس افسر نے اس بارے میں کچھ بتانے سے گریز کیا ہے۔ البتہ ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود کا کہنا ہے کہ 'قیامِ امن' کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں اور جب متحارب فریقین میں امن معاہدہ طے پا جائے گا تو راستے کھل جائیں گے۔
قبائلی رہنما طارق خان کے مطابق فرقہ وارانہ کشیدگی اور تصادم کے بعد نہ صرف انتظامیہ بلکہ متحارب فریقین از خود ایک دوسرے پر دباؤ بڑھانے کے لیے سڑکیں اور راستے بند کر دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ راستوں اور تعلیمی اداروں کی بندش سے یوں دکھائی دیتا ہے کہ پاڑہ چنار کا ملک کے دیگر علاقوں سے رابطہ منقطع ہو کر رہ گیا ہے۔
کرم کے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر اسپتال کے ڈاکٹر میر حسن جان نے ضروری ادویات کی قلت، سرکاری و نجی اسپتالوں میں علاج معالجے کی سہولتیں نہ ملنے کے باعث آٹھ بچوں سمیت 11 افراد کے دم توڑنے کی تصدیق کی ہے۔
SEE ALSO: ضلع کرم: ایک ہفتے سے جاری فرقہ وارانہ جھڑپوں میں ہلاکتوں کی تعداد 46 ہو گئی، متعدد زخمیپرائیویٹ اسکولز مینجمنٹ نیٹ ورک کے چیئرمین محمد حیات خان نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات کرتے ہوئے بتایا کہ فیول کی کمی کے باعث دور دراز علاقوں سے اسکول و کالجز آنے والے طلبہ کی حاضری نہ ہونے کے برابر تھی جس کی وجہ سے تعلیمی ادارے بند کرنا پڑے۔
کرم سے رکنِ قومی اسمبلی اور مجلس وحدت المسلمین کے رہنما انجینئر حامد حسین نے سڑکوں کی بندش کا ذمے دار ضلعی انتظامیہ کو ٹھہرایا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت اور حکومتی ادارے علاقے میں قیامِ امن اور بد امنی کے خاتمے کے دعوے کرتے ہیں مگر عملی طور پر اقدامات نہیں اٹھاتے۔
ان کے بقول کرم کے لوگ پرامن طور پر ایک دوسرے کے ساتھ عرصہ دراز سے رہ رہے ہیں لیکن ماضی قریب میں پر اسرار طریقے سے علاقے میں مذہبی منافرت پھیلائی گئی اور ایک دوسرے کو لڑایا جا رہا ہے۔
SEE ALSO: ضلع کرم میں پھر فرقہ وارانہ فسادات، راکٹوں سے ایک دوسرے پر حملےکرم کے سنی قبائل اہل تشیع پر الزامات لگانے کے ساتھ حکومتی اداروں کے اقدامات پر بھی مطمئن دکھائی نہیں دیتے۔
مقامی عمائد ملک عطاء اللہ نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں فسادات یا تصادم کے بعد امن معاہدے ہو جاتے تھے مگر حکومتی ادارے ان معاہدوں پر عمل در آمد نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ اس بار کرم کے واقعات اور کشیدگی پر صوبائی حکومت کی مسلسل خاموشی معنی خیز ہے۔
کرم کے ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود کا کہنا ہے کہ حالات کو معمول پر لانے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور متحارب قبائلی فریقین کے ساتھ دیگر قریبی علاقوں سے تعلق رکھنے والے سیاسی اور سماجی رہنماؤں کے ذریعے مذاکرات کیے جا رہے ہیں۔