انصاف میں تاخیری حربے استعمال نہیں ہونے چاہئیں: زہرا یوسف

پروین رحمٰن (فائل)

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق، پروین رحمٰن کے قتل کے مقدمے کو عدالت عظمیٰ بڑی دلچسپی سے سن رہی ہے۔ ’لیکن، اس کیس کی تحقیقات کے حوالے سے کمیشن کو کئی سوالات لاحق ہیں‘

مسئلہ پینے کے صاف پانی کا ہو یا گندے پانی کی نکاسی کا؛ تعلیم کا مسئلہ ہو یا صحت کا۔۔۔ کراچی میں مختلف غیر سرکاری ادارے ہر قسم کے مسائل کے حل کے لئے کوشاں ہیں۔ لیکن، انھیں چند رکاوٹوں کا بھی سامنا ہے۔
پچھلے دنوں، کراچی پریس کلب میں سول سوسائٹی کے نمائندوں پر مشتمل ایک گروپ نے اخباری کانفرنس کرتے ہوئے، بتایا کہ اورنگی پائلٹ پروجیکٹ سے وابستہ لوگوں کو نامعلوم افراد کی جانب سے دھمکیاں مل رہی ہیں۔
پریس کانفرنس میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی چیئرپرسن، زھرا یوسف؛ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کے اگزیکٹیو ڈائریکٹر کرامت علی؛ ماہر تعمیرات عارف حسن اور دوسری غیر سرکاری تنظیموں کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
اورنگی پائلٹ پروجیکٹ ذرائع کے مطابق، کراچی کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ کچی آبادیوں پر مشتمل ہے۔ اورنگی پائلٹ پروجیکٹ ان کچی آبادیوں کے لوگوں کے مختلف مسائل کے حل کے لئے دوسرے غیر سرکاری اور سرکاری اداروں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔ 2013 ءمیں اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمٰن کو قتل کر دیا گیا تھا۔
ملک میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے ادارے، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سربراہ زہرا یوسف نے انٹرویو میں بتایا کہ پروین رحمٰن کے قتل کے کچھ ہی عرصہ بعد اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کے دیگر لوگوں کو دھمکیاں ملنا شروع ہوگئی تھیں۔ بقول اُن کے، ’اور جیسے جیسے قتل کا مقدمہ آگے بڑھتا گیا ویسے ویسے دھمکیوں میں اضافہ ہوتا گیا‘۔
زہرا یوسف نے بتایا کہ پروین رحمٰن کے قتل کے مقدمے کو سپریم کورٹ بڑی دلچسپی سے سن رہی ہے۔ لیکن، اس کیس کی تحقیقات کے حوالے سے ان کے ذہن میں سوالات ہیں۔
ادھر، کوشش کے باوجود، اس معاملے پر کراچی پولیس کا مؤقف معلوم نہ ہو سکا۔ اس حوالے سے، مقامی ذرائع ابلاغ نے بتایا ہے کہ پولیس اپنے وسائل کے مطابق، اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
زہرا یوسف نے کہا ہے کہ اس مقدمے سے پیچھے نہیں ہٹا جائے گا اور پوری کوشش کی جائے گی کہ انصاف فراہم ہو۔ بقول اُن کے، ’کراچی جیسے شہر میں کسی کی جان لینا بہت آسان ہوگیا ہے‘۔
کراچی میں ملک کی آبادی کا تقریباً 10 فیصد آباد ہے۔ یہ شہر ایک طویل عرصے سے بدامنی کا شکار ہے۔ ستمبر 2013ء سے یہاں پولیس اور رینجرز کا آپریشن جاری ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیوں سے شہر کے حالات میں بہتری آئی ہے۔ حکومت کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ آپریشن سے شہر میں ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان جیسے سنگین جرائم اور دہشت گردی میں کمی آئی ہے۔ لیکن، اب بھی شہر میں دہشت گردی اور سنگین جرائم کی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں، جو باعث تشویش ہے۔
ملک کی سیاسی و عسکری قیادت نے بار بار اس عزم کو دہرایا ہے کہ کراچی کا امن ہر قیمت پر بحال کیا جائے گا اور یہاں لوگوں کی جان و مال کو محفوظ بنایا جائے گا۔