پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے دارالحکومت پشاور میں گزشتہ سال 16 دسمبر کو آرمی پبلک اسکول پر طالبان کے مہلک میں ہلاک ہونے والے طالب علموں کے والدین نے متنبہ کیا ہے کہ اگر اُنھیں انصاف فراہم نا کیا گیا تو وہ اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے پرامن احتجاج کریں گے۔
ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین نے ہفتہ کو پشاور میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ حملے کے محرکات جاننے کے لیے تحقیقات کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن اُن کے بقول ابھی تک اس کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے۔
اسکول حملے میں ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین نے ایک تنظیم بھی بنا رکھی ہے جس کے جنرل سیکرٹری اجون خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ حکومت اُن افراد کو بھی سزا دے جن کی غفلت کے باعث یہ حملہ ہوا۔
’’اسی سلسلے میں ہم نے اُن کو 16 جون تک کی مہلت دی ہے کہ وہ لوگ جن سے سکیورٹی لیپس ہوا ہے اُن کو ہمارے سامنے لے آئیں۔‘‘
والدین کا کہنا تھا کہ اگر تحقیقات کے نتائج سے اُنھیں آگاہ نا کیا گیا تو وہ جون کے وسط میں اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے پرامن احتجاج کریں گے۔
اسکول پر طالبان شدت پسندوں کے حملے میں 134 بچوں سمیت 150 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اس مہلک حملے کے بعد پاکستان بھر میں دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے بھرپور آپریشن جاری ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان کی وفاقی حکومت نے آرمی پبلک اسکول پر حملے میں ہلاک ہونے والے بچوں، اساتذہ اور اسکول کے عملے کے افراد کو اعلیٰ سویلین اعزاز دینے کا اعلان کیا تھا۔ اس حملے کو ملک کی تاریخ میں دہشت گردی کا بدترین واقعہ قرار دیا جا رہا ہے۔
جب کہ صوبہ خیبر پختونخواہ کی حکومت نے درجنوں سرکاری اسکولوں کے نام پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے میں ہلاک ہونے والے بچوں کے ناموں سے منسوب کرنے کا فیصلہ کیا۔
صوبائی حکومت کے مطابق اس اقدام کا مقصد بچوں اور اساتذہ قربانیوں کو یاد رکھنا ہے۔