جنوبی کوریا میں 15 اپریل کو قانون ساز اسمبلی کے انتخابات ہوں گے۔ اس انتخابی مہم میں معمول کا شور شرابہ نہیں ہوگا، نہ انتخابی جلسے اور نہ جلوس؛ دو ہفتے کی اس مہم میں امیدوار آن لائین نعروں اور سوشل میڈیا کو زیادہ سے زیادہ استعمال کر رہے ہیں۔
کرونا وائرس کے پھیلاو اور اس کی روک تھام کے سلسلے میں جن ملکوں نے انتہائی کم مدت میں قابو پایا ہے، ان میں جنوبی کوریا کا نام سب سے نمایاں ہے۔
اب یہ ملک دنیا کو یہ دکھانے والا ہے کہ وہ ان حالات میں عام انتخابات کرانے کا بھی اہل ہے۔ اپریل کی پندرہ تاریخ کو یہاں قانون ساز اسمبلی کے انتخابات ہوں گے، جس کے لیے تمام تیاریاں جاری ہیں۔
یہ ضرور ہے کہ انتخابی مہم کا انداز بدلا ہوا ہے، ایک امیدوار اپنی نیلے رنگ کی انتخابی بلیو جیکیٹ میں ملبوس فٹ پاتھ پر جھاڑو دے رہے ہیں، ان کے ساتھ رضاکار بھی ہیں۔ یہ سماجی فاصلے کے اصول کی بھی مکمل پاسداری کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس بار الیکشن میں اسی طرح مہم چلائی جائے گی۔ اس انتخابی مہم میں معمول کا شور شرابہ نہیں ہوگا، نہ انتخابی جلسے اور نہ جلوس۔۔ دو ہفتے اس مہم میں امیدوار آن لائین تشہیر اور سوشل میڈیا کو زیادہ سے زیادہ استعمال کریں گے۔
ووٹنگ کا طریقہ بھی مختلف ہوگا، پولنگ اسٹیشنوں پر عملہ اور ووٹر ماسک اور دستانے پہنیں گے۔ ووٹرز کا پولنگ سٹیشن میں داخلے کے وقت بخار چیک ہو گا اور سماجی فاصلے کے اصول پر عمل درآمد لازم ہوگا۔ کرونا وائرس کے مریض ڈاک کے ذریعے اپنا ووٹ کاسٹ کریں گے۔
تاہم، بیرون ملک مقیم جنوبی کوریائی باشندوں کے لیے مسئلہ ہوگا کیوں کہ بہت سے ملکوں میں لاک ڈاون ہے۔
ایک امیدوار شن بی اوم چن کا کہنا کہ ہم نے انتخاب ملتوی کرنے کا کبھی سوچا بھی نہیں۔ یہ ضرور ہے کہ ماضی جیسے حالات نہیں ہیں مگر ان اطلاق سبھی امیدواروں پر ہوگا۔
وسط مدتی انتخابات صدر مون جائے ان کا بھی امتحان ہوگا۔ کرونا وائرس سے جس طرح ان کی حکومت نے مقابلہ کیا ہے اس کو جنوبی کوریا کے عوام نے پسند کیا ہے۔ تاہم، تجزیہ کار جیانگ ہان وول کا خیال ہے کہ جنوبی کوریا کی نازک اقتصادی حالت کی وجہ سے انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
بہرحال جنوبی کوریا کا یہ جرات مندانہ اقدام جمہوریت کی تاریخ میں ایک سنگ میل ضرور بنے گا۔