مشرقِ وسطیٰ میں بڑی جنگ ہوئی تو بھارت کا کیا مؤقف ہو گا؟

  • ایران کے اسرائیل پر میزائل حملے کے بعد خطے میں ایک بڑی جنگ کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔
  • بھارت نے فریقین پر کشیدگی کم کرنے پر زور دیا ہے۔
  • بھارت کے اسرائیل، عرب ممالک اور فلسطینی اتھارٹی سے تعلقات ہیں، لہذٰا وہ غیر جانب دار رہے گا: ماہرین
  • صورتِ حال مزید کشیدہ نہیں ہونی چاہیے اور شاید ہو گی بھی نہیں اور اگر ہو جائے تو اس کا دائرہ بہت محدود ہونا چاہیے: تجزیہ کار راجیو ڈوگرہ
  • بھارت نے یوکرین اور روس کے تنازع میں جو مؤقف اختیار کیا تھا وہی یہاں بھی اختیار کرے گا: تجزیہ کار نیلوفر سہروردی

بھارت کی جانب سے مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال پر مسلسل تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس نے تمام فریقوں سے اپیل کی ہے کہ وہ سفارت کاری اور مذاکرات سے تنازعات کو حل کریں۔

نئی دہلی میں اس بات پر گفتگو ہو رہی ہے کہ اگر صورتِ حال مزید کشیدہ ہوتی ہے تو تمام فریقوں سے اپنے تعلقات کے پیشِ نظر بھارت کا کیا مؤقف ہونا چاہیے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر صورتِ حال اور خراب ہوتی ہے اور ایران اور اسرائیل میں باضابطہ جنگ چھڑ جاتی ہے تو بھارت کو متوازن اور غیر جانبدارانہ مؤقف اختیار کرنا چاہیے۔

ان کا خیال ہے کہ اس نے یوکرین روس تنازع میں جو پالیسی اپنائی تھی وہی یہاں بھی اپنائے گا۔

یاد رہے کہ ایران نے اسرائیل پر تقریباً 200 بیلسٹک میزائلوں سے حملہ کیا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ اس نے اسماعیل ہنیہ اور حسن نصر اللہ کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے یہ حملہ کیا ہے۔

وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے جمعے کو ایک پریس بریفنگ میں مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کیا۔ وزارتِ خارجہ نے بدھ کو بھی صورتِ حال پر تشویش ظاہر کی تھی اور تمام فریقوں سے تحمل برتنے کی اپیل کی تھی۔ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ حالات پر باریکی سے نظر رکھے ہوئے ہے۔

بھارتی حکومت نے ایک ٹریول ایڈائزری بھی جاری کی اور اپنے شہریوں کو ایران کے سفر سے گریز کرنے کا مشورہ دیا۔ یہ ایڈوائزری تل ابیب میں بھارتی سفارت خانے کے اس بیان کے بعد جاری کی گئی جس میں اس نے اسرائیل میں رہ رہے بھارتی شہریوں کو گھروں میں رہنے کو کہا تھا۔

مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال پر بھارت کی فکرمندی کا اندازہ وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر کے بیان سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ انھوں نے منگل کو امریکہ میں ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت مغربی ایشیا میں ایک ممکنہ جنگ سے بہت زیادہ تشویش میں مبتلا ہے۔

رندھیر جیسوال نے اپنی بریفنگ میں کہا کہ ایران اور اسرائیل سے جو بھارتی شہری واپس آنا چاہیں وہ آ سکتے ہیں۔ طیارے پرواز کر رہے ہیں اور یہ آپشن کھلا ہوا ہے۔ کچھ لوگوں کے اہل خانہ نے سفارت خانوں سے رابطہ قائم کیا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ اسرائیل میں تقریباً 30 ہزار اور ایران میں پانچ سے 10 ہزار تک بھارتی باشندے ہیں۔ اسرائیل میں بیشتر ورکر حالیہ مہینوں میں گئے ہیں۔ جب کہ ایران میں تقریباً پانچ ہزار بھارتی طلبہ ہیں۔

مبصرین کا خیال ہے کہ اگر اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ چھڑتی ہے، تو ان شہریوں پر تو اثر پڑے گا ہی خطے میں بھارت کے مفادات بھی متاثر ہوں گے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اس وقت مغربی ایشیا کی صورتِ حال انتہائی غیر یقینی ہے اور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ آگے کیا ہو گا۔ بھارت کی تشویش کی وجہ یہ ہے کہ اس کے اسرائیل، ایران اور فلسطینی اتھارٹی سب سے تعلقات ہیں۔ وہ نہیں چاہے گا کہ صورت حال مزید کشیدہ ہو۔ اسی لیے وہ بار بار صورت حال کو معمول پر لانے کی بات کر رہا ہے۔

SEE ALSO: حزب اللہ کے متوقع سربراہ ہاشم صفی الدین کون ہیں؟

'صورتِ حال مزید کشیدہ نہیں ہونی چاہیے'

سابق سفارت کار راجیو ڈوگرہ کہتے ہیں کہ صورتِ حال مزید کشیدہ نہیں ہونی چاہیے اور شاید ہو گی بھی نہیں اور اگر ہو جائے تو اس کا دائرہ بہت محدود ہونا چاہیے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ بڑی طاقتیں اپنی طرف سے کوشش کر رہی ہیں کہ صورتِ حال خراب نہ ہو۔بھارت کی جانب سے بھی کوشش کی جا رہی ہے کہ امن قائم ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر صورتِ حال مزید کشیدہ ہوتی ہے تو سب کے لیے تشویش کا سبب ہو گا۔ اس سے سپلائی چین اور درآمدات برآمدات سب پر اثر پڑے گا۔ خطے میں بھارت کے مفادات بھی متاثر ہوں گے۔

سینئر تجزیہ کار نیلوفر سہروردی کا بھی یہی خیال ہے کہ باضابطہ جنگ نہیں ہو گی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں وہ امریکی صدر جو بائیڈن کے بیان کا حوالہ دیتی ہیں جس میں انھوں نے کہا ہے کہ ایرانی حملے کے جواب میں اسرائیلی کارروائی تناسب کے اعتبار سے ہونی چاہیے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حزب اللہ رہنما کی ہلاکت کے بعد ایران میں کافی شدید ردِعمل ظاہر کیا جا رہا تھا۔ اس لیے ایران نے اسرائیل پر بیلسٹک میزائلوں سے حملہ کیا۔ اسے جنگ تو کم سمجھا جائے گا۔ البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ کارروائی اپنے لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے تھی۔

اگر بڑی جنگ ہوئی تو؟

لیکن اگر جنگ ہوتی ہے تو بھارت کا کیا مؤقف ہو گا اس بارے میں تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بھارت غیر جانبدارانہ موقف اختیار کرے گا۔

نیلوفر سہروردی کے خیال میں بھارت کے اسرائیل، ایران، فلسطینیوں اور عرب ممالک سب سے اچھے رشتے ہیں۔ اس لیے وہ کسی ایک جانب نہیں ہو سکتا۔

راجیو ڈوگرہ اور نیلوفر سہروردی دونوں اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں کہ بھارت نے یوکرین اور روس کے تنازع میں جو مؤقف اختیار کیا تھا وہی یہاں بھی اختیار کرے گا۔

یاد رہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ 10 دنوں کے اندر فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس اور اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو سے سے بات کی ہے۔ 23 ستمبر کو اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس کے موقع پر نیو یارک میں محمود عباس سے ان کی ملاقات ہوئی تھی۔ جب کہ گزشتہ سال اکتوبر میں ان سے فون پر بات کی تھی۔

مودی نے 30 ستمبر کو نیتن یاہو سے فون پر بات کی اور دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے جانے والے شہریوں کی رہائی پر زور دیا۔

کیا مودی کے ان اقدامات کو بھارت کی جانب سے ثالثی کی کوشش تصور کرنا چاہیے؟ اس پر راجیو ڈوگرہ کہتے ہیں کہ اسے ثالثی تو نہیں کہہ سکتے۔ لیکن یہ اسی جانب ایک قدم ہے۔

نیلوفر سہرودری کہتی ہیں کہ بھارت اس معاملے میں فریقین سے دوبدو بات چیت شاید نہ کرے۔ کیوں کہ رپورٹس کے مطابق جب مودی نے کیف جا کر زیلنسکی سے ملاقات کی تھی تو صدر پوٹن نے خفگی کا اظہار کیا تھا۔ وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ جب نیتن یاہو صدر بائیڈن کی نہیں سن رہے ہیں تو وہ بھارت کی کیا سنیں گے۔

رپورٹس کے مطابق بھارت کو تیل کی ضرورت کا 80 فی صد حصہ مغربی ایشیا سے سپلائی ہوتا ہے۔ اگر جنگ ہوتی ہے تو توانائی کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔ مزید برآں یہ کہ بڑے عرب ملکوں نے بھارت میں سرمایہ کاری کی خواہش ظاہر کی ہے جنگ کی صورت میں اس پر اثر پڑے گا۔

واضح رہے کہ بھارت کا مؤقف یہ ہے کہ فلسطینیوں اور اسرائیل تنازعے کا حل دو مملکتی فارمولے میں ہے۔ وہ بارہا اس بات کا اعادہ کر چکا ہے کہ وہ فلسطینی کاز کے ساتھ ہے۔ لیکن وہ دہشت گرددی کا بھی مخالف ہے۔