امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف سینیٹ میں آئندہ ہفتے شروع ہونے والے ٹرائل سے قبل اُن کے وکلا اور مواخذے کے منتظمین ڈیموکریٹک ارکان نے علیحدہ علیحدہ اپنے دلائل پیش کیے ہیں۔
منگل کو سینیٹ میں ڈیموکریٹک پراسیکیوٹر نے سابق صدر کے خلاف 77 صفحات پر مشتمل چارج شیٹ پیش کی جس میں ٹرمپ پر مختلف الزامات عائد کیے گئے۔ تاہم سابق صدر کے وکلا نے ڈیموکریٹک ارکان کے الزامات مسترد کرتے ہوئے سینیٹ میں کارروائی کی آئینی حیثیت پر سوالات اٹھائے ہیں۔
سینیٹ میں 9 فروری کو سابق صدر ٹرمپ کے خلاف ٹرائل شروع ہو گا جس میں فریقین دلائل دیں گے۔
ڈیموکریٹک پراسیکیوٹرز نے الزام عائد کیا ہے کہ ٹرمپ نے انتخابی نتائج کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جو چھ جنوری کو بغاوت کا باعث بنا۔
پراسیکیوٹرز کے مطابق سابق صدر کے نامناسب الفاظ اور اقدامات کی وجہ سے ان کے حامیوں نے کانگریس کی عمارت کیپٹل ہل پر اُس وقت یلغار کی جب وہاں جو بائیڈن کی انتخابات میں کامیابی کی توثیق کا عمل جاری تھا۔ اس حملے میں کیپٹل پولیس کے افسر سمیت پانچ افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔
سابق صدر کے خلاف چارج شیٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ انتخابی مہم کے دوران ریلیوں اور سوشل میڈیا پر تواتر کے ساتھ یہ کہتے رہے کہ اگر وہ انتخابات میں ناکام ہوئے تو یہ دھاندلی اور سازش کی وجہ سے ہوگا اور یہ دھوکہ دہی ان کے حامیوں کے ساتھ بھی ہو گی۔
SEE ALSO: کیا سابق صدر ٹرمپ کا مواخذہ آئینی ہے؟چارچ شیٹ کے مطابق چھ جنوری کو وائٹ ہاؤس کے سامنے ٹرمپ نے اپنے حامیوں سے ایک گھنٹے کے خطاب کے دوران اُنہیں "لڑنے بھڑنے کی تلقین کی اور کہا کہ اگر آپ نہیں لڑیں گے تو آپ کے پاس ملک نہیں رہے گا اور کمزور ہو کر آپ اپنا ملک حاصل نہیں کر سکتے۔" آپ کو طاقت کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور لازمی مضبوط ہونا پڑے گا۔
یاد رہے کہ چھ جنوری کو وائٹ ہاؤس کے سامنے ٹرمپ کی تقریر سننے کے بعد ان کے حامی کیپٹل ہل پر چڑھ دوڑے تھے جہاں انہوں نے پولیس اہلکاروں پر حملے کر کے عمارت کے دوازے اور کھڑکیاں توڑیں۔
ڈیموکریٹک پراسیکیوٹرز نے الزام عائد کیا ہے کہ سابق صدر نے کیپٹل ہل پر حملہ کرنے والوں کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔
ڈیموکریٹک پراسیکیوٹرز نے چارج شیٹ میں سابق صدر کے خلاف سینیٹ میں ٹرائل شروع کرنے اور پہلی ترمیم کے تحت صدر کے تحفظ کے نکتے پر بھی بحث کی ہے اور دلیل پیش کی ہے کہ سینیٹ میں سابق صدر کا ٹرائل ہو سکتا ہے۔
ٹرمپ کے وکلا کے دلائل
ٹرمپ کے وکلا کی ٹیم نے 14 صفحات پر مشتمل اپنے دلائل میں مفصل مضمون کے بجائے ہر الزام کا الگ الگ جواب دائر کیا ہے۔
ٹرمپ کی دفاعی ٹیم نے سینیٹ کے اختیار پر بھی سوال اٹھایا اور کیپٹل ہل پر حملے میں سابق صدر کے ملوث ہونے کی تردید کی۔
ٹرمپ کی دفاعی ٹیم کے مطابق سابق صدر کے انتخابات سے متعلق تمام بیانات کو پہلی ترمیم کے تحت تحفظ حاصل ہے۔
ٹرمپ کے وکیل ڈیوڈ شان اور بروس کاسٹر نے دلیل دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کے تحت اس شخص کے خلاف مواخذے کی کارروائی کی جا سکتی ہے جو صدارتی دفتر میں موجود ہے اور آئین کے تحت مجرم ٹھہرائے جانے کے بعد ایسا شخص صدارتی دفتر میں نہیں رہ سکتا۔ تاہم سابق صدر کے خلاف مواخذے کی کارروائی نہیں ہو سکتی۔
SEE ALSO: ٹرمپ کا سینیٹ میں مواخذے کی کارروائی سے قبل نئی قانونی ٹیم کا اعلانسابق صدر کے وکیلوں نے چھ جنوری کی ٹرمپ کی تقریر کا بھی ذکر کیا اور کہا ہے کہ ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو الیکشن کے تحفظ کے لیے لڑنے کا کہا تھا نہ کہ تباہ کن برتاؤ اختیار کرنے کا۔
ٹرمپ کے وکلا نے ڈیموکریٹک پراسیکیوٹرز کے ان الزامات کی بھی تردید کی جس میں کہا گیا تھا کہ سابق صدر نے انتخابی نتائج کو تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی۔
پراسیکیوٹرز نے الزام عائد کیا تھا کہ سابق صدر ٹرمپ نے دو جنوری کو ریاست جارجیا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ کو فون کر کے انہیں بائیڈن کی ناکامی یقینی بنانے اور ان کے حق میں ووٹ تلاش کرنے کا کہا تھا۔
ٹرمپ کو مجرم ٹھہرانے کے لیے کتنے ووٹ درکار ہیں؟
سابق صدر ٹرمپ کو مجرم ٹھہرانے کے لیے سینیٹ میں دو تہائی اکثریت درکار ہے۔ اس وقت ایوان میں ری پبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹی کے 50، 50 ارکان ہیں۔
ڈیموکریٹک پارٹی کو صدر ٹرمپ کے مواخذے کے لیے ری پبلکن پارٹی کے 17 ارکان کی حمایت درکار ہو گی۔ تاہم بیشتر ری پبلکن سینیٹرز ٹرمپ کے صدارتی دفتر میں نہ ہونے کے بعد مواخذے کی کارروائی شروع کرنے پر تحفظات رکھتے ہیں۔
اگر صدر ٹرمپ سینیٹ میں مجرم قرار پاتے ہیں تو وہ دوبارہ کوئی وفاقی عہدہ نہیں سنبھال سکیں گے۔
یہ دوسرا موقع ہے کہ صدر ٹرمپ کو مواخذے کی کارروائی کا سامنا ہے۔ اُنہیں 2019 میں بھی مواخذے کی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ایوانِ نمائندگان نے ٹرمپ کے مواخذے کی منظوری دی تھی۔
ٹرمپ پر الزام تھا کہ انہوں نے اختیارات کا غلط استعمال کیا اور کانگریس کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی۔ تاہم سینیٹ نے فروری 2020 میں سابق صدر کو اس الزام سے بری کر دیا تھا۔
سینیٹ میں اس بار ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے حامیوں کو بغاوت پر اکسانے کے الزام کا سامنا ہے۔