افغانستان میں قیامِ امن اور بین الافغان مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے ترکی کے شہر استنبول میں رواں ماہ افغان کانفرنس متوقع ہے۔ افغان پارلیمنٹ کے اراکین پراُمید ہیں کہ اس کانفرنس سے ملک میں جنگ بندی کی راہ ہموار ہو گی۔
استنبول کانفرنس کی حتمی تاریخ کا تاحال اعلان نہیں کیا گیا۔ البتہ طالبان کے ایک ترجمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ اگر کانفرنس 16 اپریل کو ہوئی تو طالبان وفد اس میں شرکت نہیں کرے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ کانفرنس میں شرکت کے حوالے سے طالبان نے تاحال کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا۔
شینکئی کڑوخیل 2005 سے افغان پارلیمنٹ کی رُکن ہیں۔ ان کے مطابق افغانستان میں سیکیورٹی کی صورتِ حال اب بھی ٹھیک نہیں اور جنگ نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے الزام لگایا کہ حالیہ دنوں میں طالبان نے نہ صرف شدت پسندی کی کارروائیوں میں اضافہ کیا ہے بلکہ وہ پُلوں، سڑکوں اور دوسری ضروری تنصیبات کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں جس سے روزمرہ کی زندگی بھی متاثر ہو رہی ہے۔
البتہ، طالبان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ صرف سرکاری تنصیبات اور افغان فورسز کو نشانہ بناتے ہیں۔
افغانستان میں چار دہائیوں سے جاری جنگ میں لاکھوں افراد کی ہلاکت کے علاوہ کئی افراد بے گھر اور بے روزگار بھی ہوئے ہیں جس کے بعد عوامی سطح پر جنگ بندی کا مطالبہ شدت اختیار کر رہا ہے۔
شینکئی کڑوخیل کا کہنا تھا کہ وہ بھی دیگر افغان عوام کی طرح پُرامید ہیں کہ طالبان استنبول کانفرنس کے موقع پر سیز فائر پر آمادہ ہو جائیں گے۔
اُن کے بقول جنگ جاری رہنے سے سیکیورٹی فورسز کے ساتھ ساتھ افغان عوام، حتٰی کہ طالبان کا بھی نقصان ہو رہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
افغان رُکنِ پارلیمنٹ کا کہنا تھا کہ وہ طالبان سے کہیں گی کہ وہ افغان عوام کی خواہشات کو سنجیدہ لیں اور جنگ بندی پر آمادہ ہو جائیں کیوں کہ لوگ جنگ سے تنگ ہیں۔ لہذٰا طالبان کو بھی مذاکرات کی میز پر حل تلاش کرنا چاہیے۔
خیال رہے کہ افغان تنازع کے پرامن حل کے لیے امریکہ نے اپنی کوششیں تیز کر رکھی ہیں اور اسی سلسلے میں رواں ماہ استنبول میں افغان کانفرنس بھی متوقع ہے جس میں افغان حکومت اور طالبان کے وفود شریک ہوں گے۔
کانفرنس کے سلسلے میں چند روز قبل امریکہ کے نمائندۂ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے افغان صدر اشرف غنی سے بھی ملاقات کی تھی۔
'مشترکہ کوششیں رنگ لائیں گی'
رُکن پارلیمنٹ گل احمد کمین کا تعلق افغانستان کے صوبہ قندھار سے ہے۔ ان کاُ کہناُ ہے کہ استنبول کانفرنس سے آفغان عوام کی بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوے انہوں نے بتایا کہ گزشتہ مذاکرات کے تسلسل کے تناظر میں اس کانفرنس میں بریک تھرو کی قوی اُمید ہے۔
گل احمد کا کہنا تھا کہ نہ صرف عالمی طاقتیں بلکہ خطے کے دیگر ممالک بھی افغانستان میں پائیدار امن کے خواہاں ہیں۔ لہذٰا یہ مشترکہ کوششیں ضرور رنگ لائیں گی۔
اُن کا کہنا تھا کہ گزشتہ چار دہائیوں سے جاری جنگ سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ صرف افغان عوام کا ہی نقصان ہوا ہے۔
صدر اشرف غنی کا 'امن روڈ میپ'
امن عمل کے سلسلے میں افغان صدر اشرف غنی بھی ایک روڈ میپ کا اعلان کر چکے ہیں جس میں طالبان سے معاہدے اور انتخابات سے قبل جنگ بندی پر زور دیا گیا ہے۔
شینکئی کڑوخیل کا مزید کہنا تھا کہ افغان صدر کا منصوبہ امن کے حصول کی جانب ایک اچھا قدم ہے اور وہ امید رکھتی ہیں کہ اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
استنبول کانفرنس سے قبل افغانستان میں دیر پا امن کے حوالے سے کافی کوششیں ہو چکی ہیں۔ لیکن نہ تو افغانستان میں شدت پسندی میں کمی واقع ہوئی ہے اور نہ ہی حکومت اور طالبان کے درمیان اعتماد کی فضا بہتر ہوئی ہے۔
کابل میں مقیم سینئر تجزیہ نگار نجیب اللہ آزاد کا کہنا ہے کہ اگرچہ صدر اشرف غنی افغانستان میں قیامِ امن کے حوالے سے کافی سنجیدہ ہیں لیکن وہ اپنے طریقے سے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں۔
یاد رہے کہ افغان صدر قیامِ امن کا واحد اور پائیدار حل ملک میں انتخابات کے انعقاد کو ہی قرار دیتے ہیں۔
نجیب اللہ آزاد کہتے ہیں کہ اگر زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو طالبان گزشتہ 20 سالوں سے اسی ملک میں ہیں اور لڑ رہے ہیں لیکن گزشتہ چار انتخابات میں انہوں نے کسی ایک میں بھی حصہ نہیں لیا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے نجیب اللہ آزاد نے مزید بتایا کہ اگر طالبان نے اسی آئین کے تحت انتخابات کے ذریعے حکومت حاصل کرنی ہوتی تو وہ ایسا بہت پہلے کر چکے ہوتے۔
انہوں نے واضح کیا کہ حکومتی اتحاد میں بھی اختلافات ہیں۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس طریقے سے صدر اشرف غنی افغانستان میں قیامِ امن چاہتے ہیں وہ رکاوٹ کا سبب بن سکتا ہے۔
مبصرین کے مطابق استنبول کانفرنس گزشتہ کانفرنسز سے کئی وجوہات کی بنا پر مختلف ہے۔ کیوں کہ اس میں اقوامِ متحدہ کی بھی بھرپور حمایت شامل ہے۔
نجیب اللہ آزاد نے مزید بتایا کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ اقوام متحدہ نے امریکہ، نیٹو اتحاد، یورپی یونین، علاقائی ممالک، طالبان اور افغان حکومت سے اس کانفرنس کے حوالے سے رابطہ کیا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس حوالے سے زلمے خلیل زاد نے بھی متحرک کردار ادا کیا ہے اور طالبان اور افغان حکومت کے نمائندوں سے متعدد ملاقاتیں کی ہیں۔
اُن کے بقول خلیل زاد نے خطے کے دیگر ممالک بشمول پاکستان، بھارت، چین اور روس کو بھی اعتماد میں لیا ہے۔
نجیب اللہ آزاد کا مزید کہنا تھا کہ ایسا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ کسی کانفرنس سے پہلے امن کی کئی تجاویز سامنے آ رہی ہیں۔
اُن کے بقول پہلے امریکہ نے عبوری حکومت کی تجویز پیش کی جس کے بعد ترکی، قطر اور اقوامِ متحدہ کی جانب سے مختلف تجاویز سامنے آئیں اور پھر افغان حکومت بھی اپنی تجاویز پر مشتمل منصوبہ سامنے لائی۔