ہانگ کانگ میں پیر کے روز جمہوریت کی حمایت میں مظاہروں میں ڈرامائی طور پر شدت پیدا ہونے کے بعد پولیس نے مظاہرے میں شامل ایک شخص کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
احتجاج سے متعلق ویڈیو فوٹیج میں ایک پولیس اہل کار بندوق تانے ماسک اور سفید لباس میں ملبوس ایک شخص کو پکڑنے کے لیے اس کی جانب بڑھتا ہے۔ جبکہ اسی دوران ایک اور شخص دکھائی دیتا ہے، جس نے سیاہ لباس پہنا ہوا ہے اور وہ ان دونوں کی طرف جا رہا ہے۔ پولیس اہل کار اچانک اپنی پستول کا رخ اس کی طرف موڑ کر گولی چلا دیتا ہے۔
ہانگ کانگ کی پولیس نے گولی چلانے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ مظاہرین کے کئی چھوٹے چھوٹے گروہوں نے کئی شاہراہیں اور میٹرو لائنز بند کر دیں اور دکانوں کو نقصان پہنچایا ۔
ہانگ کانگ میں عوامی مظاہرے شروع ہوئے پانچ مہینوں سے زیادہ ہو چکے ہیں۔
رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ پولیس نے ہانگ کانگ کی پولی ٹیکنک یونیورسٹی سمیت شہر کے متعدد مقامات پر مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور پانی کی تیز پھوار کا استعمال کیا۔
ہانگ کانگ کی چیف ایکزیکٹو کیری لیم چنگ نے پیر کے روز کہا کہ اگر کسی کو یہ خوش فہمی ہے کہ حکومت تشدد بڑھنے سے سیاسی مطالبے ماننے پر مجبور ہو جائے گی تو میں ان پر واضح کرنا چاہتی ہوں کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہو گا۔ تشدد ان مسائل کے حل میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتا جس کا ہانگ کانگ کو سامنا ہے۔
ہانگ کانگ میں مظاہروں کو ہوا اس قانون سازی سے ملی جس میں مبینہ طور پر جرائم میں ملوث افراد کو مقدمے چلانے کے لیے چین بھیجنے کی اجازت دی گئی تھی۔ تاہم اب مظاہرین کے مطالبات اس سے کہیں آگے بڑھ گئے ہیں اور وہ ہانگ کانگ میں جمہوری نظام کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ہانگ کانگ طویل عرصے تک برطانیہ کے کنٹرول میں رہا جس میں اسے بڑے پیمانے پر خود مختاری حاصل تھی۔ تاہم معاہدے کے مطابق برطانیہ نے 1997 میں ہانگ کانگ کا کنٹرول چین کے حوالے کر دیا تھا۔
مقامی سیاست دانوں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین آہستگی کے ساتھ ہانگ کانگ پر اپنی گرفت مضبوط کر رہا ہے اور بنیادی آزادیاں رفتہ رفتہ ختم کر رہا ہے۔