امریکہ میں جہاں گھر کے مرد اور عورت دونوں عمومی طور پر دن بھر ملازمت یا کام کے سلسلے میں گھر سے باہر رہتے ہیں اپنی غیر موجودگی میں اپنے والدین یا بزرگوں کی دیکھ بھال کےلیے یا تو انہیں مقامی اولڈ ایج ہاؤسز میں چھوڑتے ہیں یا ان کی جانب سے فراہم کردہ ہوم سروسز یا گھر میں کام کرنے والے ملازموں کی مدد حاصل کرتے ہیں۔
تاہم، امریکہ میں آباد پاکستانی اور جنوبی ایشیائی گھرانے اپنی ثقافتی روایات کے تحت نہ تو خود اور نہ ہی ان کے بزرگ یہ پسند کرتے ہیں کہ وہ اپنا گھر چھوڑ کر کسی اولڈ ایج ہاؤس یا سینیرز ہاؤس میں مستقل طور پر یا دن بھر یا دن کے کچھ گھنٹے گزاریں۔ یا انہیں اپنے گھروں میں ایسے خدمتگاروں کے ساتھ رہنا پڑے جو نہ تو ان کی زبان سے واقف ہوں اور نہ ہی ان کی ثقافتی اقدار سے۔
مقامی اولڈ ایج ہاؤسز سے استفادہ نہ کر سکنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنی سہولیات کی فراہمی میں زبان اور ثقافت کو پیش نظر نہیں رکھتے۔ یوں اس اہم سہولت کے فقدان کے باعث پاکستانی اور جنوبی ایشیا کے ملازمت پیشہ جوڑوں کو گھر سے باہر کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اپنے بزرگوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری بھی نبھانا پڑتی ہے۔ یہ مسئلہ اس وقت اور مشکل صورتحال اختیار کر لیتا ہے اگر گھر کے معمر افراد کسی شدید بیماری کا شکار بھی ہو جائیں۔
ایسی ہی صورتحال کی شکار مشی گن کی ایک پاکستانی امریکی خاتون شائستہ کاظمی نے اس مسئلے کا حل نکالا پاکستانی اور جنوبی ایشیا کی کمیونٹی کے معمر افراد کے لیے ایک ادارہ ’اپنا گھر‘ قائم کر کے۔
گزشتہ دنوں پروگرام ہر دم رواں ہے زندگی میں گفتگو کرتے ہوئے شائستہ کاظمی نے بتایا کہ انہوں نے یہ ادارہ اس کے بعد قائم کیا جب انہیں خود اپنے گھر میں اپنے بیمار والد، اپنے سسر اور ساس کی دیکھ بھال کے لیے کوئی پاکستانی یا جنوبی ایشیائی خدمتگار نہ مل سکا۔
انہوں نے بتایا کہ ان کا ادارہ پاکستانی اور جنوبی ایشیائی کمیونٹی کے معمر افراد کو ان کی زبان، مذہب اور ثقافت سے واقف ایسےگھریلو ملازم اور ملازمائیں کرتا ہے جو دوسرے مقامی اداروں کے ملازموں کی نسبت کم اجرت پر دن بھر یا دن یا رات کے کچھ گھنٹوں کے لیے ان کے ساتھ رہ کر ان کے لئے ان کی پسند کے کھانے تیار کرتے ہیں۔ انہیں نہلانے دھلانے میں، ان کی لانڈری کرنے میں اور انہیں گھر سے باہر کسی جگہ لانے لےجانے میں مدد کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تنہائی کے ایک ہم زباں دوست یا ساتھی بھی ثابت ہوتے ہیں جن کے ساتھ وہ اپنا وقت خوشی خوشی گزارتے ہیں۔
شائستہ کاظمی نے کہا کہ ان کا ادارہ ’اپنا گھر‘ کسی عمارت میں قائم نہیں ہے بلکہ انہوں نے جنوبی ایشیا اور مسلم کمیونٹی کے ان افراد کا ڈیٹا بیس قائم کیا ہے جو مناسب معاوضے پر اپنی کمیونٹی کے معمر افراد کی دیکھ بھال ان کے گھروں میں آکر کرنے پر تیار ہوتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان کا ادارہ مختلف ہسپتالوں اور کلینکس میں بھی پاکستانی اور جنوبی ایشیائی بوڑھے مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے خدمتگار فراہم کرتا ہے۔
شائستہ کاظمی نے بتایا کہ ’اپنا گھر‘ کی اس خصوصی سروس کو جنوبی ایشیائی کمیونٹی کی جانب سے بہت پذیرائی حاصل ہو رہی ہے؛ اور اس وقت ان کے اس ادارے کا دائرہ کار مشی گن کے علاوہ نیو یارک اور ٹکساس تک پھیل چکا ہے، جہاں جنوبی ایشیا کی کمیونٹی اپنے گھر کے بزرگوں کی دیکھ بھال کے لیے ادارے کی ہوم سروسز سے استفادہ کر رہی ہے۔
اور نیو جرسی میں قائم ’اپنا گھر‘ کے چیپٹر کی فاؤنڈر، نسیمہ احمد نے جو اس سے قبل ایک اور ادارے میں ڈائریکٹر تھیں، ’ہر دم رواں ہے زندگی‘ میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے اس ادارے میں اس لیے شمولیت اختیار کی کہ انہیں خود اپنے شوہر کی بیماری کے دوران کسی پاکستانی یا جنوبی ایشیائی خدمتگار نہ ملنے کی وجہ سے گھر کے کام کاج اور اپنے شوہر کی دیکھ بھال کے سلسلے میں بے انتہا مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
انہوں نے کہاہے کہ ان ہوم سروسز کی وجہ سے پاکستانی اور جنوبی ایشیا کے معمر افراد کے لیے لیے گھر میں کسی حادثے کا شکار ہونے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے، نرسنگ ہومز کے اخراجات کم ہوجاتے ہیں اور انہیں تنہائی کا ایک ایسا ساتھی مل جاتا ہے جو ان کے ساتھ محبت اور شفقت سے ان کی مذہبی، ثقافتی اور ذاتی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے انہیں دن بھر خوشی سے رہنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
نسیمہ احمد نے کہا کہ یہ بات قابل تعریف ہے کہ پاکستانی اور جنوبی ایشیا میں آباد معمر افراد کی اولاد اپنے والدین اور بزرگوں کی دیکھ بھال پر ہزاروں ڈالرز خرچ کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔