پاکستان کرکٹ ٹیم کے سینئر کھلاڑی محمد حفیظ کی ایک ٹوئٹ نے پاکستان کا دورۂ انگلینڈ خطرے میں ڈال دیا ہے اور کرکٹ کے تجزیہ کار اور کمنٹیٹرز خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ حفیظ جیسے تجربہ کار کھلاڑی کی جانب کی اس حرکت کے نتائج سنگین ہو سکتے ہیں۔
کرونا وائرس کی وجہ سے کھیلوں کے میدانوں کو بھی تالے لگے ہوئے ہیں۔ اس صورتِ حال میں پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان آئندہ ماہ شروع ہونے والی سیریز کو انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
ابھی اس دورے کی تیاریاں ہی جاری تھیں کہ محمد حفیظ نے ایک نیا تنازع کھڑا کر دیا ہے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کو تین ٹیسٹ اور اتنے ہی ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلنے کے لیے 28 جون کو انگلینڈ روانہ ہونا ہے۔ اس دورے سے قبل کھلاڑیوں کے کرونا ٹیسٹ کیے گئے جن میں سے 10 کرکٹرز میں وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔
ان 10 کھلاڑیوں میں سے نو نے پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی جانب سے کرائے جانے والے ٹیسٹ پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے نتائج تسلیم کیے اور جس نے نتیجہ رد کیا وہ محمد حفیظ تھے۔ جنہوں نے دورۂ انگلینڈ کے انعقاد کو ہی خطرے میں ڈال دیا ہے۔
منگل کو حفیظ کا کووڈ-19 ٹیسٹ مثبت آیا تو انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ ایک اور ٹیسٹ کرا لیں تاکہ اس بات کی تصدیق ہو جائے کہ انہیں کرونا ہے بھی یا نہیں؟
محمد حفیظ نے لاہور کی ایک مقامی لیب سے کرونا ٹیسٹ کرایا جو منفی آیا جس کے بعد انہوں نے اپنی ٹیسٹ رپورٹ بدھ کو مکمل کوائف کے ساتھ سماجی رابطے کی سائٹ ٹوئٹر پر پوسٹ کر دی۔
رپورٹ ٹوئٹ کرتے وقت حفیظ کو نہ یہ یاد رہا کہ ان کی رپورٹ میں موبائل نمبر سے لے کر گھر کے پتے تک سب تفصیلات درج ہیں، اور نہ انہوں نے یہ سوچا کہ اس سے باقی کھلاڑی اور خود پی سی بی آفیشلز کیا سوچیں گے۔
تھوڑی دیر بعد انہوں نے اپنی ذاتی تفصیلات مٹا کر رپورٹ دوبارہ ٹوئٹ کی لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔
ذرائع کے مطابق محمد حفیظ کی ٹوئٹ کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کے ساتھ منسلک ڈاکٹر سہیل کو انگلش کرکٹ بورڈ کے ساتھ معاملات سلجھانے میں گھنٹوں لگے اور اُنہیں میزبان بورڈ پر واضح کرنا پڑا کہ پاکستان میں کبھی ٹیسٹ منفی اور کبھی مثبت آ سکتا ہے۔
اسپورٹس جرنلسٹ بھی خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ حفیظ کی ٹوئٹ کے بعد انگلش بورڈ پاکستان میں کیے جانے والے کرونا ٹیسٹس کے نتائج پر عدم اعتماد کرسکتا ہے۔
سینئر اسپورٹس جرنلسٹ شاہد ہاشمی سمجھتے ہیں کہ کسی بھی فرد کی طرح محمد حفیظ کو اپنا کووڈ-19 ٹیسٹ کرانے کا حق تھا، لیکن اس کی رپورٹ اُنہیں سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر نہیں ڈالنی چاہیے تھی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ محمد حفیظ کی ٹوئٹ نے پاکستان کرکٹ بورڈ کو بہت نقصان پینچایا ہے۔
اُن کے بقول انگلش کرکٹ بورڈ کو پاکستانی کھلاڑیوں کے مثبت آنے والے ٹیسٹ سے زیادہ منفی آنے والے 18 کرکٹرز کی زیادہ فکر تھی کہ آیا ان کے ٹیسٹ رزلٹ درست ہیں بھی یا نہیں۔
شاہد ہاشمی کا کہنا ہے کہ پی سی بی نے نہ صرف محمد حفیظ کی سرزنش کی ہے بلکہ ناراضگی کا اظہار بھی کیا ہے۔
ان کے بقول محمد حفیظ نے بورڈ سے معافی تو مانگ لی ہے لیکن لگتا ہے کہ معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ حفیظ کی اس حرکت کے بعد ان کے خلاف تادیبی کارروائی کا امکان ہے۔
جیو نیوز سے وابستہ اسپورٹس جرنلسٹ عتیق الرحمان کے مطابق محمد حفیظ کی ٹوئٹ نے جہاں پی سی بی کو شرمندہ کیا ہے وہیں پاکستان میں کرونا ٹیسٹنگ کے نتائج پر بھی سوالات اٹھا دیے ہیں۔
اُن کے بقول کل تک جو عام لوگوں کے ساتھ ہو رہا تھا کہ ایک جگہ سے ٹیسٹ کراتے تو مثبت اور دوسری جگہ سے کراتے تو منفی، اب یہ ایک کرکٹر کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ جسے انہوں نے سوشل میڈیا پر ڈال کر ساری دنیا کی توجہ پاکستان کی جانب کر دی ہے۔
عتیق الرحمان کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان سیریز سے قبل اس قسم کے تنازعات سے کرکٹ اور پاکستان دونوں کو نقصان پہنچا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ محمد حفیظ نے کرکٹ بورڈ سے اجازت لے کر اپنا دوسرا کرونا ٹیسٹ کرایا تھا جس کی رپورٹ آنے پر انہوں نے سب سے پہلے بورڈ ہی کو آگاہ کیا۔
عتیق الرحمان کے مطابق اس رپورٹ کو ٹوئٹر پر شیئر کرنے سے پہلے انہوں نے بورڈ کو اطلاع نہیں دی۔ لیکن ان کے بقول حفیظ کے اس فعل نے بورڈ کی اتھارٹی کو چیلنج نہیں کیا بلکہ اس طرح انہوں نے پاکستان میں کرونا ٹیسٹ کرنے والوں کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔