پاکستان کے صوبے سندھ کے گورنر عمران اسمعیل نے کہا ہے کہ کراچی میں مسائل ہیں تاہم ان کو حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
واشنگٹن میں 'وائس آف امریکہ' کو دیے گئے انٹرویو میں عمران اسمعیل کا کہنا تھا کہ کراچی میں کچرے اور گندگی کا مسئلہ ہے اسی طرح پانی کی کمی کا بھی سامنا ہے ان مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔
خیال رہے کہ حالیہ دنوں میں برطانوی جریسے 'اکانومسٹ' نے رپورٹ شائع کی تھی جس میں کراچی کو رہنے کا قابل شہروں میں انتہائی نچلے درجے میں رکھا گیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
عمران اسمعیل نے برطانوی جریدے کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ کراچی میں خرابیاں ہیں جن کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی زندگی سے بھر پور ہے جبکہ یہ ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والا شہر ہے۔ اس لیے جو رپورٹ سامنے آئی ہے وہ کوئی اپنا سروے ہوگا۔
کراچی کے مسائل حل کرنے کے حوالے سے اقدامات پر گورنر سندھ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں رائج نظام کے تحت تمام ذمہ داریاں صوبائی حکومت کی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وفاق میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت ہے جبکہ صوبے میں ایک اور جماعت برسر اقتدار ہے۔ یہ اس جماعت کی ذمہ داری ہے کہ صوبے کے مسائل حل کرے۔
عمران خان کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم چاہتے ہیں کہ کسی طرح کراچی کے صفائی کا معاملہ آگے بڑھے۔ وہ ذاتی طور پر اس میں دلچسپی لے رہے ہیں۔
کراچی کے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے گورنر سندھ نے بتایا کہ شہر کے میئر کا تعلق ایک اور جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے ہے۔ یہ تھوڑے سے معاملات سامنے آ رہے ہیں لیکن امید ہے کہ مسائل حل کر لیے جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اختیارات کا ایشو ہے۔ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ بنا ہوا ہے اس کی کارکردگی ایسی نہیں ہے جس طرح اس کو کام کرنا چاہیے۔ اسی طرح یہ شہر کے میئر کا کام ہے کہ صفائی کروائیں جبکہ وہ کہتے ہیں ان کے اس کام کے لیے پیسہ نہیں جبکہ صوبائی حکومت کہتی ہے کہ وہ بورڈ کو پیسہ دے گی دوسری طرف بورڈ کام نہیں کر رہا۔ یوں ایک سائیکل بنا ہوا ہے جس سے مسائل ہیں۔
عمران اسمعیل نے کہا کہ صوبائی برسر اقتدار جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، وفاق میں موجود پی ٹی آئی اور کراچی شہر میں ایم کیو ایم مل کر اس مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کراچی کو سیدھا کیا جاسکے۔
Your browser doesn’t support HTML5
گورنر کے کردار کے حوالے سے انہوں کہا کہ کراچی کے حوالے سے میرا کوئی کردار نہیں ہے۔ اگر کوئی کردار ہوتا تو ساری توانائی اور پیسہ کراچی پر صرف کرتا البتہ وفاقی حکومت کی توجہ کراچی پر مرکوز ہے۔
گورنر سندھ نے بتایا کہ پوری دنیا میں حکمرانی کا بہترین طریقہ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی ہے۔ سندھ میں اگر اس طرح نہیں ہوگا تو ایسے مسائل آتے رہیں گے۔ صوبائی حکومت سے مذاکرات کرکے اختیارات میئر کو دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
امریکہ کے دورے کے حوالے سے گورنر سندھ عمران اسمعیل کا کہنا تھا کہ اس دورے میں ملک کے 22 بڑے کاروباری گروپس ساتھ ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستانی کاروباری گروپس کو امریکہ کے ساتھ تجارت میں کس قدر دلچسپی ہے۔ یہ وزیر اعظم کے دورے کا فالو اپ ہے۔ عمران خان کے دورے سے ہی پاکستان میں یہ خیال اجاگر ہوا کہ امریکہ سے پاکستانیوں کے لیے کاروبار کے مواقع موجود ہیں۔
پاکستان اور بھارت کا ذکر کرتے ہوئے گورنر سندھ نے کہا کہ دورے سے قبل کشمیر کے معاملات سامنے آئے تو وزیر اعظم نے خصوصی تاکید کی کہ امریکہ کے دورے میں کشمیر کا ذکر لازمی ہر جگہ کیا جائے۔ اس وقت حکومت کی اولین ترجیح کشمیر ہے۔
کشمیر کے حوالے سے انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت سب سے یہی کہہ رہے ہیں کہ کشمیر میں آزادنہ نقل وحرکت کی اجازت ہونی چاہیے اس لیے وہاں سے کرفیو کا خاتمہ کیا جائے۔ ذرائع ابلاغ کو آزادی ہونی چاہیے کہ وہ حالات کو رپورٹ کرے جبکہ آزاد مبصرین کشمیر کے حالات جا کر دیں۔ اس کے بعد یہ معاملہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے تحت حل کرنے کے اقدامات کرنے چاہیئں۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا پاکستان اور بھارت میں امن نہیں ہو سکتا۔
امریکی قانون سازوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کچھ ارکان کانگریس میں کشمیر کے حوالے سے قرار داد لانے کے لیے تیار ہیں۔
عمران اسماعیل نے بتایا کہ پاکستان جنگ نہیں چاہتا۔ بھارت سے مذاکرات کرکے مسائل حل کرنے کے خواہاں ہیں۔ لیکن سب سے پہلے کشمیر میں عوام پر مظالم بند کیے جائیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک کے ہر خطے کی ترجیح ایک ہی ہے اور وہ کشمیر ہے۔ پاکستان کے نمائندے دنیا میں جہاں جا رہے ہیں وہ کشمیر کو اجاگر کر رہے ہیں۔ صوبائی مسائل، اپنا شہر، کاروبار اور دیگر معاملات اس کے بعد آتے ہیں۔
امریکہ کے دورے کی کامیابی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ جب کاروباری معاملات آگے بڑھیں گے اور اس حوالے سے اعداد و شمار سامنے آئیں گے تو معلوم ہو گا کہ دورہ کس قدر کامیاب رہا لیکن اس کے آنے میں وقت لگے گا ابھی ابتدائی بات چیت شروع ہوئی ہے۔