رسائی کے لنکس

پیپلز پارٹی کو سندھ میں درپیش چیلنجز اور ایک سالہ کارکردگی


صوبے میں حالیہ مون سون بارشوں کے بعد پانی کی نکاسی نہ ہونے اور دیگر مسائل پر پیپلز پارٹی کی حکومت کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔ (فائل فوٹو)
صوبے میں حالیہ مون سون بارشوں کے بعد پانی کی نکاسی نہ ہونے اور دیگر مسائل پر پیپلز پارٹی کی حکومت کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔ (فائل فوٹو)

پاکستان کے صوبہ سندھ کی حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی مسلسل تیسری بار صوبے پر حکومت کر رہی ہے۔ لیکن صوبے کے مسائل اس قدر گھمبیر ہیں کہ عوام شکایات کرتے ہی دکھائی دیتے ہیں۔

گزشتہ ایک سال کے دوران پیپلز پارٹی کو جہاں وفاق میں تحریک انصاف کے ساتھ پہلی مرتبہ کام کرنے کا موقع مل رہا ہے، وہیں صوبے میں بھی تحریک انصاف کی صورت میں اِسے ایک چیلنج کا سامنا ہے۔

پیپلز پارٹی کی صوبائی اسمبلی کی ایک سالہ کارکردگی کچھ اس طرح رہی کہ ایوان میں 12 مختلف بلز منظور کیے گئے، جس میں سے سب سے اہم بل پولیس اصلاحات سے متعلق تھا۔

اس قانون کے تحت صوبائی حکومت نے صوبے میں پرانا پولیس ایکٹ بعض تبدیلیوں کے ساتھ دوبارہ نافذ کیا ہے۔

یاد رہے کہ 2011 میں پیپلز پارٹی ہی کی صوبائی حکومت نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں نافذ کردہ پولیس قانون کو آمر کا قانون قرار دیتے ہوئے ختم کر دیا تھا اور سندھ میں پولیس ایکٹ 1861 کو دوبارہ نافذ العمل کیا تھا۔ تاہم، رواں سال اسمبلی نے اسے بعض ترامیم کے ساتھ دوبارہ اسمبلی میں منظور کیا۔

گورنر کی جانب سے بل منظور نہ کیے جانے کے باوجود صوبائی اسمبلی نے اسے دوبارہ منظور کر کے صوبے میں نافذ کیا۔

سندھ اسمبلی کے اکثر اجلاسوں میں حکومت اور اپوزیشن ارکان کے درمیان سخت جملوں کے تبادلے بھی ہوتے رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)
سندھ اسمبلی کے اکثر اجلاسوں میں حکومت اور اپوزیشن ارکان کے درمیان سخت جملوں کے تبادلے بھی ہوتے رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)

اپوزیشن جماعتوں کا مؤقف ہے کہ پولیس ایکٹ میں اب بھی بعض خامیاں موجود ہیں اور حکومت نے اب بھی انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس کو وہ اختیارات نہیں دیے جو عدالت نے آئی جی کو دینے کا حکم دیا تھا۔

اسی طرح صوبائی حکومت نے گزشتہ ایک سال کے دوران جیلوں میں اصلاحات سے متعلق بھی ایک اہم بل منظور کیا، جس کے ذریعے جیلوں کے نظام میں نئی اصلاحات متعارف کرائی گئیں۔

ان اصلاحات میں یہ بھی شامل ہے کہ اب قیدی نئے جیل قوانین کے تحت اپنے گھر والوں کے ساتھ ویڈیو کال کے ذریعے بھی رابطہ کر سکیں گے۔

صوبائی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس قانون سازی کے ذریعے قیدیوں کی بہتر تربیت اور انہیں اچھا شہری بنانے کے عمل میں مدد ملے گی۔

اسی سال منظور کردہ ایک بل کے تحت صوبے میں قائم تمام اسپتالوں کو کسی بھی زخمی شخص کو قانونی تقاضوں کو پورا کیے بغیر فوری علاج کا پابند بنایا گیا ہے۔

یہ ایکٹ سات سالہ بچی 'امل عمر' کی ہلاکت کے بعد بنایا گیا ہے، جو ڈاکوؤں اور پولیس کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں گولی لگنے سے زخمی ہوگئی تھی اور پھر نجی اسپتال کی جانب سے فوری ابتدائی طبی امداد نہ ملنے کے باعث بچی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی تھی۔

کراچی کی کمسن بچی امل عمر پولیس اور ڈاکوؤں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں گولی لگنے سے ہلاک ہوگئی تھی۔ (فائل فوٹو)
کراچی کی کمسن بچی امل عمر پولیس اور ڈاکوؤں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں گولی لگنے سے ہلاک ہوگئی تھی۔ (فائل فوٹو)

ایک اور بل کے ذریعے میٹرو پولیٹن کارپوریشن اور دیگر بلدیاتی اداروں میں میئر، ڈپٹی میئر اور چیئرمین کو ہٹانے کے لیے دو تہائی اکثریت کی بجائے سادہ اکثریت سے ہٹانے کا قانون پاس کیا گیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے شدید احتجاج کے باوجود بھی یہ بل اسمبلی سے پاس کیا گیا۔

اپوزیشن جماعتوں کا مؤقف ہے کہ قانون میں تبدیلی سے بلدیاتی اداورں میں حکومت اپنے من پسند افراد کو لگا اور نکال سکے گی اور اس طرح ان اداروں میں صوبائی حکومت کی مداخلت مزید بڑھے گی۔

تھر کے کوئلے سے بجلی کی پیداوار

پاکستان پیپلز پارٹی ضلع تھر پارکر میں پائے جانے والے کوئلے کے وسیع ذخائر سے بجلی پیدا کرنے کے آغاز کو اپنی جماعت کی کامیابی قرار دیتی ہے۔

طویل انتظار کے بعد اس منصوبے کے پہلے مرحلے میں 660 میگاواٹ بجلی پیدا کر کے قومی گرڈ میں شامل کی جا رہی ہے۔

پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے شروع کیے گئے تھرکول پاور پلانٹ کے منصوبے پر عملی کام 2009 میں شروع کیا گیا تھا، جس پر تقریبا ڈیڑھ ارب ڈالر کے قریب لاگت آئی ہے۔

منصوبے کے تحت تھر میں کوئلے کے دیگر بلاکس پر بھی کام جاری ہے۔ حکام کے مطابق، علاقے میں کوئلے کے 175 ارب ڈالرز کے ذخائر موجود ہیں، جو بجلی کی قومی ضرورت 50 سال تک پورا کرسکتے ہیں۔

ضلع لاڑکانہ میں ایچ آئی وی سے سیکڑوں افراد متاثر

پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کو ایک سال کے دوران صحت کے معاملے میں سب سے بڑے چیلنج کا سامنا پارٹی کے گڑھ اور بھٹو خاندان کے آبائی علاقے لاڑکانہ میں کرنا پڑا۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق لاڑکانہ میں اب تک 786 افراد میں ایچ آئی وی انفیکشن کی نشاندہی ہو چکی ہے۔ ان افراد میں سے 600 کے قریب بچے بتائے جاتے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کی جانب سے لاڑکانہ میں اتنی بڑی تعداد میں ایچ آئی وی کے انکشاف کے بعد ایمرجنسی کا نفاذ کیا گیا۔

لاڑکانہ میں متعدد بچوں میں ایچ آئی وی کی تشخیص ہوئی تھی۔ (فائل فوٹو)
لاڑکانہ میں متعدد بچوں میں ایچ آئی وی کی تشخیص ہوئی تھی۔ (فائل فوٹو)

اتنی بڑی تعداد میں ایچ آئی وی کیسز کے سامنے آنے پر پیپلز پارٹی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور ماہرین نے اس کا تمام تر ذمہ دار محکمہ صحت کی ناقص صورت حال کو قرار دیا۔

صوبائی حکومت نے وائرس سے متاثرہ مریضوں کے علاج کے لیے حالیہ بجٹ میں ایک ارب روپے سے زائد مختص کیے ہیں۔

صوبائی حکومت کے ترجمان مرتضٰی وہاب کے مطابق سندھ حکومت ان افراد کی مدد کے لیے کوشاں ہے اور ان کی بحالی کے لیے ہر ممکن مدد فراہم کی جا رہی ہے۔

طرز حکمرانی پر سوالات

غیر جانبدارانہ رائے کے مطابق صوبے پر تقریبا 11 سال سے بلا شرکت غیر حکمرانی کرنے کے باوجود بھی یہ تاثر عام ہے کہ صوبے میں بہتر طرز حکمرانی کے معاملے پر کوئی مثبت تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔

یہ تاثر صوبائی حکومت کے تقریباً تمام محکموں کی کارکردگی سے متعلق موجود ہے۔

سینئر صحافی اور مقامی کے ٹی وی 'کے ٹی این' نیوز سے وابستہ شکیل سومرو کے مطابق صحت کے شعبے میں جہاں قومی ادارہ امراض قلب اور دیگر کئی اداروں کو وسعت دی گئی ہے، محکمہ صحت کی کارکردگی میں قدرے بہتری آئی ہے اور لوگوں کو بڑی تعداد میں صحت کی بہتر سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔

دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو صحت کی بنیادی سہولیات میں فقدان، تھرپارکر میں بچوں کی ہلاکت کے واقعات کا تسلسل اور پھر صوبے میں ایڈز کے پھیلاؤ نے ان دعووں کی قلعی کھول دی ہے۔

بارشوں کے بعد پانی کی نکاسی کا مسئلہ

مون سون کی حالیہ بارشوں میں نہ صرف صوبائی دارالحکومت کراچی بلکہ حیدرآباد، ٹھٹھہ، نواب شاہ، نوشہرو فیروز اور دیگر شہروں میں بھی کئی کئی ہفتوں بعد بھی پانی کی نکاسی نہ ہو سکی، جو سندھ کے ان بڑے شہروں میں تباہ حال انفراسٹرکچر اور منصوبہ بندی کے فقدان کا عکاس ہے۔

بدین، ٹھٹھہ اور دیگر علاقوں کے شہریوں کو بارش سے قبل پانی کی شدید کمی کا سامنا تھا جس نے شہریوں کے ساتھ آباد کاروں کو بھی احتجاج پر مجبور کیے رکھا۔

ںکاسی آب کی مناسب سہولیات نہ ہونے کے باعث پیپلز پارٹی کی حکومت کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔ (فائل فوٹو)
ںکاسی آب کی مناسب سہولیات نہ ہونے کے باعث پیپلز پارٹی کی حکومت کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔ (فائل فوٹو)

کئی ماہرین کے خیال میں صوبے میں پانی کی کمی کی وجوہات میں پانی کی تقسیم کے نظام میں نقائص، بااثر افراد کا اثر و رسوخ اور پھر نہروں کی پختگی اور صفائی نہ ہونے کے عوامل بھی شامل ہیں۔

ایک سال کے عرصے کے دوران وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سمیت صوبائی حکومت کے کئی وزراء اور ترجمان یہ الزامات عائد کرتے نظر آئے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے صوبے کو اس کے محاصل سے 100 ارب روپے سے زائد کی کٹوتی کی گئی ہے جس سے کئی ترقیاتی کام بروقت نہ ہوسکے۔

صوبائی حکومت کا مؤقف ہے کہ وفاق سے رقم نہ ملنے کی وجہ سے صوبائی حکومت کو اپنے اخراجات میں کٹوتی کرنا پڑی۔ تاہم، صوبائی حکومت کے ان دعووں کی وفاقی حکومت تردید کرتی ہے۔

پارٹی رہنما بدعنوانی کے الزمات کی زد میں

قومی احتساب بیورو (نیب) نے ایک سال کے دوران پیپلز پارٹی کے کئی سرکردہ رہنماؤں کو گرفتار کیا ہے اور ان کے خلاف ریفرنس عدالت میں زیر سماعت ہیں۔

ان میں پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، رکن قومی اسمبلی اور سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ اور رکن صوبائی اسمبلی فریال تالپور، اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی نمایاں ہیں۔

رکن صوبائی اسمبلی شرجیل انعام میمن ایک سال سے زائد عرصہ جیل میں رہنے کے بعد حال ہی میں ضمانت پر رہا ہوئے ہیں۔ اسی طرح وزیر اعلیٰ سندھ مرداد علی شاہ، سابق وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ اور صوبائی وزیر مکیش کمار چاؤلہ سمیت کئی اراکین سندھ اسمبلی اور صوبائی حکومت کے اہم افسران کے خلاف بدعنوانی، اختیارات سے تجاوز اور آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے الزامات کی تحقیقات جاری ہیں۔

پیپلز پارٹی کے سینئر رہنماؤں کو نیب مقدمات کا سامنا ہے۔ (فائل فوٹو)
پیپلز پارٹی کے سینئر رہنماؤں کو نیب مقدمات کا سامنا ہے۔ (فائل فوٹو)

غیر جانبدار رائے کے مطابق ان گرفتاریوں کے باعث پیپلز پارٹی شدید دباؤ کا شکار رہی اور اس کا لا محالہ اثر صوبے میں حکومتی کارکردگی پر بھی پڑا ہے۔

صحافی شکیل سومرو کے مطابق، ان تمام خامیوں کے باوجود بھی سندھ کے عوام پاکستان پیپلز پارٹی ہی کی جانب دیکھتے ہیں کیونکہ اس کے علاوہ اب تک کوئی ایک ایسی جماعت سامنے نہیں آئی جو پیپلز پارٹی کے متبادل کے طور پر اُبھرے اور ان کے مسائل حل کر سکے۔

اپنے اس دعوے کی مثال دیتے ہوئے شکیل سومرو کا کہنا تھا کہ گھوٹکی میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں بھی پیپلز پارٹی کا ہی امیدوار کامیاب ہوا تھا۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG