اسپین کے شہر میڈرڈ میں آب و ہوا کی تبدیلیوں کے کرہ ارض پر مرتب ہونے والے منفی اثرات پر قابو پانے سے متعلق عالمی کانفرنس اپنے اختتامی مرحلے میں داخل ہو گئی ہے، جب کہ کانفرنس میں شریک ممالک میں کئی معاملات پر اختلافات دکھائی دے رہے ہیں۔
منتظمین یہ کوشش کر رہے ہیں کہ اس کانفرنس میں آب و ہوا کی تبدیلیوں پر بڑے ملکوں سے نئے وعدے حاصل کیے جائیں۔
کئی روز سے جاری اس کانفرنس کے اختتامی مرحلے میں زیادہ تر اختلافات کا تعلق تیکنیکی معاملات سے ہے۔
کانفرنس کے آغاز پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹرس نے کہا تھا کہ اب ہمارے پاس واپسی کا کوئی راستہ نہیں بچا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ آب و ہوا کی تبدیلی کے نظریے سے اتفاق نہیں کرتے اور انہوں نے نہ صرف یہ کہ کاربن گیسوں کا اخراج کم کرنے کی بجائے ایسے فیصلے کیے ہیں جن سے گلوبل وارمنگ کا سبب بنے والی گیسوں کے اخراج میں اضافے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
کانفرنس سے قبل سائنس دانوں نے اپنے پیغامات اور طالب علموں نے دنیا بھر میں مظاہرے کر کے آب و ہوا کی تبدیلی کے معاملے کو سنجیدگی سے لینے اور اس پر قابو پانے کے لیے ٹھوس اور دور رس نتائج کے حامل فیصلے کرنے پر زور دیا تھا۔ اب جب کہ کانفرنس ختم ہونے جا رہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ دنیا بھر کے ممالک نے زمین کو گرم ہونے سے بچانے کے لیے کن اقدامات پر اتفاق کیا ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 84 ملکوں نے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ اگلے سال کے اختتام تک آب و ہوا سے متعلق اپنے قومی پروگراموں میں اضافہ کریں گے، جب کہ 73 ملکوں نے کہا ہے کہ وہ اس صدی کے نصف تک کاربن گیسوں کا اخراج صفر تک لانے کا ہدف حاصل کرنے کے لیے کام کریں گے۔
چھوٹے جزائر پر مشتمل ممالک کے اتحاد کے اس جانب اشارہ کیا کہ بڑے صنعتی ممالک جن میں آسٹریلیا، امریکہ، کینیڈا، روس، بھارت، چین اور برازیل شامل ہیں، اس صدی کے آخر تک عالمی درجہ حرارت 1.5 سینٹی گریڈ سے نیچے لانے کے لیے نظر ثانی شدہ منصوبے پیش کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔
کانفرنس میں امیر ممالک کا کہنا تھا کہ کسی متفقہ معاہدے کے لیے ضروری ہے کہ تمام ملک اپنے ہاں سے کاربن گیسوں کا اخراج گھٹانے کا وعدہ کریں، جب کہ پچھلے معاہدے میں صرف بڑے صنعتی ملکوں کے کاربن کا اخراج کم کرنے کا کہا گیا تھا اور کم ترقی یافتہ ملکوں کو کچھ چھوٹ دی گئی تھی۔