جارجیا سے امریکی سینیٹ کی دو نشستیں کتنی اہم ہیں؟

فائل فوٹو

امریکی سینیٹ کی دو سیٹوں کے لیے ریاست جارجیا میں دوبارہ ہونے والے مقابلوں میں ارلی ووٹنگ کا سلسلہ جاری ہے۔

پانچ جنوری کو ہونے والے مقابلوں میں ڈیموکریٹک امیدوار دو ری پبلکن سینیڑز کو چیلنج کر رہے ہیں۔ ان الیکشن کے دوبارہ ہونے کے وجہ پہلے ہوئے الیکشن میں کسی بھی امیدوار کو واضح برتری حاصل نہ ہونا ہے۔

ریاست جارجیا کے انتخابی قوانین کے مطابق اگر کوئی بھی امیدوار 50 فی صد سے زیادہ ووٹ حاصل نہیں کر پاتا تو پہلے اور دوسرے نمبر پر زیادہ ووٹ لینے والے امیدواروں میں دوبارہ الیکشن منعقد کرایا جاتا ہے۔

پانچ جنوری کو ہونے والے ان دو مقابلوں میں ڈیموکریٹک پارٹی کے رافیل ورنوک اور جان اوسوف ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹ کے ارکان کیلی لوفلر اور ڈیوڈ پردو کے بالترتیب مدِ مقابل ہیں۔

مبصرین کے مطابق ان دوبارہ ہونے والے مقابلوں کے نتائج ایوانِ بالا میں دونوں جماعتوں کی نمائندگی اور کانگریس کی سیاست کے لیے بہت اہم ثابت ہوں گے۔

اس وقت 100 رکنی سینیٹ میں ری پبلکن پارٹی کو ڈیموکریٹس پر 48 کے مقابلے میں 50 ممبران کے ساتھ دو سیٹوں کی برتری حاصل ہے۔ اس صورتِ حال میں ری پبلکن کی ایک سیٹ پر بھی فتح ان کو ایوان میں اکثریت دلا دے گی۔ دوسری جانب اگر ڈیموکریٹک پارٹی دونوں سیٹوں پر کامیاب ہوتی ہے تو 50-50 نمائندگی ہونے کے بعد ان کی پارٹی نائب صدر کے ووٹ سے اکثریتی پوزیشن میں ہو گی۔

جارجیا کا انتخاب کتنا اہم ہے؟

سیاسی مبصرین کے مطابق تین نومبر کے الیکشن میں کئی سیٹیں کھونے کے باوجود ڈیموکریٹک پارٹی نے ایوانِ نمائندگان میں اپنی برتری برقرار رکھی ہے۔ لیکن نئی ڈیموکریٹک حکومت کو اپنے ایجنڈے پر عمل درآمد کے لیے سینیٹ سے منظوری لینا ہو گی۔

کرونا کے دوران ووٹںگ کا ایک منظر

لہٰذا ماہرین کی نظر میں دونوں پارٹیوں کے لیے جارجیا کے یہ دو انتخابی مقابلے آئندہ برسوں میں قانون سازی اور کانگریس میں پارٹیوں کے سیاسی اثر و رسوخ کے لیے فیصلہ کن اہمیت کے حامل ہیں۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نو منتخب صدر جو بائیڈن نے حالیہ دنوں میں جارجیا میں ووٹروں سے خطاب کیا۔

ہیوسٹن میں ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے پاکستانی امریکی سیاست دان ایم جے خان کہتے ہیں کہ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کسی ایک ریاست میں بیک وقت سینیٹ کی دونوں نشستوں پر دوبارہ الیکشن ہو۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان دو مقابلوں کے نتیجے کانگریس میں طاقت کے توازن پر اثر انداز ہوں گے۔

انہوں نے کہا: "جہاں تک ری پبلکن امیدواروں کی کامیابی کا سوال ہے، تو اس کا بہت حد تک انحصار اس بات پر ہو گا کہ ری پبلکن ووٹرز کتنی بڑی تعداد میں ان مقابلوں میں ووٹ ڈالیں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ریاست کی آبادی میں سیاہ فام ووٹرز اور تارکین وطن کے ووٹ بھی اہم رہیں گے۔"

ایم جے خان کہتے ہیں کہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے باعث ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کا عمل بھی الیکشن کے رجحانات پر اثر انداز ہوا ہے۔

ڈیموکریٹس کے لیے 'دوسرا' موقع

دوسری طرف ڈیموکریٹک پارٹی پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ تین نومبر کے الیکشن میں پارٹی کی ایوانِ نمائندگان کی 10 سے زائد نشستوں پر شکست یہ ظاہر کرتی ہے کہ جارجیا میں دونوں ری پبلکن سینیٹروں سے مقابلہ ایک بڑا چیلنج ہے اور کامیابی حاصل کرنا ایک بڑا کام ہے۔

ساتھ ہی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ڈیموکریٹک پارٹی کے لیے جارجیا میں سینیٹ کا مقابلہ ایک موقع ہے کہ وہ ایوانِ نمائندگان میں اپنے نقصان کا ازالہ کر سکے۔

پارٹی سے عرصۂ دراز سے تعلق رکھنے والے ماہر جم مینلی کہتے ہیں کہ پارٹی بہتر کارکردگی دکھا سکتی ہے لیکن اسے محتاط انداز سے کام کرنا ہو گا۔

انہوں نے 'یو ایس اے ٹوڈے' اخبار کو بتایا: "سیاست میں دوسری بار کسی موقع کا میسر ہونا ایک کمیاب بات ہے، لیکن اب ڈیموکریٹکس کو جارجیا میں ایسا موقع میسر ہے۔"

جارجیا میں کس کا پلڑا بھاری ہے؟

جارجیا کو روایتی طور پر ری پبلکن پارٹی کا مضبوط قلعہ تصور کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن اس سال ڈیموکریٹک امیدوار بائیڈن نے کانٹے کے مقابلے کے بعد اس ریاست کا معرکہ اپنے نام کیا۔

اس ہفتے کے آغاز سے شہری ارلی ووٹنگ کی سہولت کو استعمال کر رہے ہیں۔ ووٹرز مخصوص مقامات پر خود جار کر ووٹ ڈال رہے ہیں۔

اس ریاست میں گزشتہ ماہ ہونے والے صدارتی انتخاب میں 50 لاکھ میں سے نصف سے زائد ووٹروں نے تین ہفتوں کے مقررہ وقت میں ارلی ووٹنگ کی سہولت استعمال کی تھی۔

لیکن کچھ مبصریں کہتے ہین کہ جارجیا میں اس پیر سے شروع ہونے والی ارلی ووٹنگ میں مخصوص مقامات پر خود حاضر ہو کر ووٹ ڈالنے کا رجحان صدارتی انتخابات سے بھی زیادہ اہم ہے کیوں کہ صدارتی الیکشن کے مقابلے میں سینیٹ کے ان دو مقابلوں میں لوگوں کے پاس ڈاک کے ذریعہ ووٹ ارسال کرنے کا وقت نسبتاً کم ہے۔

میڈیا کے مطابق ان مقابلوں میں عام انتخابات کے مقابلے میں ووٹ ڈالنے کی شرح کم رہنے کی توقع ہے تاہم ایموری یونیورسٹی کے پروفیسر برنارڈ فراگا کہتے ہیں کہ کل ووٹروں کی تعداد 40 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔