پاکستان میں ان دنوں چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے مختلف شوگر ملز اور بڑے ڈیلرز کے خلاف وفاقی تفتیشی ایجنسی (ایف آئی اے) کی جانب سے کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے۔ حکومت کا یہ الزام ہے کہ شوگر ملز مالکان ملی بھگت کر کے ملک میں چینی کا مصنوعی بحران پیدا کرتے ہیں جس سے چینی مہنگی فروخت ہوتی ہے۔
البتہ، شوگر ملز مالکان ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔
پاکستان میں یوں تو عرصۂ دراز سے کاروباری افراد پر گٹھ جوڑ اور ملی بھگت کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ تاہم حالیہ عرصے میں چینی کی قیمتوں میں اچانک اضافے پر اسے 'سٹے بازوں' کی کارستانی قرار دیا جا رہا ہے۔
'سٹے بازی' کی اصطلاح زیادہ تر کرکٹ میچز کے دوران استعمال ہوتی رہی ہے تاہم پاکستان میں چینی کی قیمتوں میں اضافے کے دوران حکومتی وزرا اور ماہرین چینی کے مصنوعی بحران کا ذمے دار سٹے بازوں کو قرار دے رہے ہیں۔
جہانگیر ترین کے خلاف مقدمات
ایف آئی اے لاہور نے گزشتہ ہفتے اِس سلسلے میں حکمراں جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما جہانگیر خان ترین اور ان کے بیٹے علی ترین کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کیا ہے۔
اِسی طرح ایک اور مقدمے میں جہانگیر ترین کے قریبی ساتھی اور ان کی کمپنی 'جے ڈی ڈبلیو' کے چیف آپریٹنگ افسر رانا نسیم اور چیف فنانشل افسر (سی ایف او) محمد رفیق کے خلاف بھی مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
مقدمے کے مطابق جہانگیر خان ترین اور ان کے بیٹے علی ترین نے ایک غیر ملکی کمپنی میں تین ارب روپے سے زیادہ کے حصص غیر قانونی طور پر منتقل کیے۔
البتہ، جہانگیر ترین اپنے اوپر عائد الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے اپنے خلاف مقدمات کو سازش قرار دیتے ہیں۔
قیمتوں کے تعین کا پیچیدہ نظام
پاکستان میں گنے کی کاشت، قیمتوں کے تعین اور شوگر ملز سے متعلق معاملات کی نگرانی کے لیے صوبوں کی سطح پر کین کمشنرز تعینات کیے جاتے ہیں۔
کین کمشنر پنجاب محمد زمان وٹو کے مطابق چینی کی پیداواری لاگت معلوم کرنے کا فارمولہ، جس کی بنا پر ایکس مل اور مارکیٹ پرائس متعین کی جاتی ہے کچھ پیچیدہ ہے۔
اُن کے بقول اسی بنیاد پر یہ منفی پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ حکومت کی جانب سے مقرر کردہ چینی کی 85 روپے فی کلو قیمت کم ہے اور اس سے ملز مالکان کو نقصان ہو گا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کین کمشنر پنجاب نے بتایا کہ 2018 میں گنے کی فی من امدادی قیمت 180 روپے تھی جب کہ اس وقت چینی کی اوسطً فی کلو قیمت 52 روپے تھی۔
اُن کے بقول رواں سال گنے کی فی من امدادی قیمت 268 روپے تھی، لہذٰا اس تناسب سے دیکھا جائے تو 43 فی صد اضافے کے ساتھ چینی کی فی کلو قیمت 74 روپے بنتی ہے۔
زمان وٹو کے بقول 2019 میں چینی پر سیلز ٹیکس آٹھ فی صد سے بڑھا کر 17 فی صد کر دیا گیا۔ اگر یہ نو فی صد اضافہ جمع کیا جائے تو کل خوردہ قیمت یعنی مارکیٹ پرائس صرف 81 روپے چھپن پیسے بنتی ہے۔ جو کہ حال ہی میں مقرر کردہ مارکیٹ پرائس 85 روپے فی کلو گرام سے بھی کم ہے۔
کین کمشنر پنجاب محمد زمان وٹو بتاتے ہیں کہ اگر شوگر ملز اس قیمت پر چینی مہیا نہیں کرتیں تو یہ عوام کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔ لہذٰا حکومت اس معاملے پر بالکل حق بجانب ہے۔
واضح رہے کہ صوبۂ پنجاب میں چینی کی فی کلو سرکاری قیمت 85 روپے مقرر کی گئی ہے ہے جب کہ یہ عام بازار میں سو روپے فی کلو سے ایک سو پانچ روپے فی کلو گرام کے حساب سے فروخت ہو رہی ہے۔
چینی پر سٹہ کیسے ہوتا ہے؟
چینی کی تجارت سے جُڑے افراد بتاتے ہیں کہ چینی کی قیمتوں میں کمی یا اضافہ طلب و رسد سے منسلک سٹے بازی کی وجہ سے ہوتا ہے۔
لاہور میں چینی کے کاروبار سے منسلک تاجر جاوید شیخ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں سٹے بازی کا کام تو کئی سالوں سے چل رہا ہے۔ لیکن گزشتہ کچھ سالوں سے اس میں تیزی آئی ہے۔
جاوید شیخ بتاتے ہیں کہ پاکستان میں چینی کا سٹہ زیادہ تر اکبری منڈی لاہور اور جوڑیا بازار کراچی میں ہوتا ہے۔ جاوید شیخ کے مطابق اکبری منڈی لاہور صوبۂ پنجاب میں اناج کی خرید و فروخت کا سب سے بڑا مرکز ہے جہاں چینی کا کاروبار بھی ہوتا ہے۔
جاوید شیخ نے مزید بتایا کہ سٹے کا زیادہ کام کرشنگ سیزن کے دوران ہوتا ہے۔ گنے کی کرشنگ کا سیزن مارچ میں ختم ہوتا ہے اور اس وقت چینی کی سپلائی زیادہ ہوتی ہے۔ اُس وقت قیمتیں کم ہونے کا امکان ہوتا ہے لیکن سٹے باز چینی کی قیمتیں کم نہیں ہونے دیتے۔
جاوید شیخ کے مطابق چینی پر سٹہ دو طرح سے کھیلا جاتا ہے۔ پہلے طریقے میں سٹے باز شوگر ملوں کو بیعانہ یعنی کچھ رقم ادا کر کے آئندہ مہینوں میں چینی کا اسٹاک اُٹھانے کی ڈیل کرتے ہیں۔
دوسرے طریقے میں چینی کے تاجر (بڑے ڈیلر) آپس میں طے کر کے چینی کا سودا کرتے ہیں۔ جاوید شیخ کے مطابق اِس طرح کے سٹے میں نہ بیعانہ شامل ہوتا ہے اور نہ ہی چینی کی ڈلیوری دی جاتی ہے۔
اُن کے بقول اگر مارکیٹ میں چینی کا موجودہ نرخ 90 روپے فی کلو ہے تو سٹے باز مستقبل کے لیے مہنگے داموں میں چینی خریدنے کے آرڈرز دیتے ہیں اور پھر شوگر ملز بھی زیادہ قیمت پر چینی فروخت کرتی ہیں۔ لیکن یہ صرف قیمتیں بڑھانے کا طریقہ ہوتا ہے اور درحقیقت اس میں چینی کی فزیکل ڈلیوری نہیں ہوتی۔
جاوید شیخ کے بقول سٹے باز قیاس آرائیاں مارکیٹ میں پھیلا دیتے ہیں جس سے مارکیٹ میں چینی کی مصنوعی قلت کا بحران پیدا ہوتا ہے اور طلب بڑھنے پر لامحالہ چینی کی قیمت بھی بڑھ جاتی ہے۔
ایف آئی اے نے بھی اپنی تحقیقات کے دوران انکشاف کیا کہ پاکستان میں مصنوعی قلت اور سٹّہ بازی کے ذریعے چینی کی قیمت کو مسلسل بڑھایا جا رہا ہے۔ ایک سال کے دوران چینی کی فی کلو قیمت 70 سے بڑھ کر 90 روپے کر دی گئی۔ لہذٰا ایک سال کے دوران سٹہ لگانے والوں نے 110 ارب روپے کمائے۔
ایف آئی اے نے اپنی تحقیقات میں سٹے کی رقوم رکھنے کے لیے جعلی اکاؤنٹس کا انکشاف بھی کیا تھا۔
وفاقی تفتیشی ادارے نے رمضان میں چینی کی قیمتوں میں اضافہ روکنے کے لیے بھی مختلف ڈیلرز کے خلاف کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں۔
ایف آئی اے لاہور کی ٹیم میں شامل ایک افسر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شوگر سٹہ مافیا کے 10 بڑے گروپوں کے خلاف مقدمات درج کر کے گرفتاریوں کے لیے ایف آئی اے نے 20 ٹیمیں تشکیل دی ہیں۔
تحقیقاتی افسر کے مطابق مبینہ سٹہ مافیا کے 40 سرکردہ ارکان کے بینک اکاونٹس منجمد کر دیے گئے ہیں جن میں کچھ کا تعلق پاکستان میں سیاسی گھرانوں سے بھی ہے۔
شوگر ملز مالکان کے خلاف تحقیقات
تحقیقاتی ٹیم کے رکن نے وائس آف امریکہ کو مزید بتایا کہ سٹہ مافیا کے علاوہ ایف آئی اے نے شوگر ملز مالکان کو گزشتہ ماہ سے ایف آئی اے لاہور دفتر طلبی کے نوٹس جاری کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔
ان میں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز، حمزہ شہباز، جہانگیر ترین، مونس الہٰی بھی شامل ہیں۔
تحقیقاتی ٹیم کے رکن کے مطابق تمام شوگر ملز مالکان کو عدم حاضری اور عدم تعاون کی صورت میں گرفتاری کا سامنا کرنا پڑے گا۔
شوگر ڈیلرز ایسوسی ایشن کا مؤقف
شوگر ڈیلر ایسوسی ایشن کے عہدے دار رانا ایوب کہتے ہیں کہ چینی کے کاروبار میں کوئی سٹہ نہیں ہوتا، صرف مستقبل کی خریداری ہوتی ہے۔ جسے موجودہ حالات میں لوگ اِس کاروبار کو بدنام کرنے کے لیے اِسے سٹے بازی کا نام دے رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ایوب نے کہا کہ موجودہ صورتِ حال میں اصل مسئلہ چینی کی قیمتوں کا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ جب سیزن کا آغاز ہوا تو اِس وقت چینی کی قیمت تقریباً 70 سے 75 روپے فی کلو تھی۔ جس کے بعد قیمتیں بڑھ کر تقریباً 95 روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہیں۔
رانا ایوب کے بقول حکومت کو یہ خدشہ لاحق ہوا کہ رمضان میں چینی کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ جس کا حل یہ تھا کہ ایک دوسرے پر الزام لگانے کے جائے بیٹھ کر بات چیت کی جاتی اور کوئی قابلِ قبول حل نکالا جاتا۔ لیکن حکومت نے جس طرح ڈیلرز کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا اس سے مزید خرابی کا خدشہ ہے۔
رانا ایوب کے مطابق شوگر ڈیلر ایسوسی ایشن اپنے کاروبار کو بند نہیں کرنا چاہتے۔ لیکن اُن کی بات کو سنے بغیر جس طرح سے ایف آئی اے نے کارروائیاں کرتے ہوئے مقدمات درج کیے ہیں اور میڈیا ٹرائل کر کے ساری صورتِ حال کا ذمے دار ڈیلرز کو قرار دیا جا رہا ہے وہ مناسب نہیں ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ شوگر ملز کی جانب سے فارورڈ سیل یا مستقبل کے سودوں کو سٹہ بازی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ پوری دنیا میں ہوتا ہے، لیکن پاکستان میں اس کے غلظ معنی نکالے جا رہے ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان میں گزشتہ سال آٹے اور چینی کے بحران سے متعلق بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کے مطابق پنجاب حکومت کی طرف سے جن شوگر ملوں کو سبسڈی دی گئی تھی اس میں جہانگیر ترین کے علاوہ وفاقی وزیر خسرو بختیار، مونس الٰہی اور دیگر کی شوگر ملز بھی شامل ہیں۔
یاد رہے اِس سے قبل بھی جہانگیر ترین، علی ترین، شہباز شریف، حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز پر چینی سے متعلق منی لانڈرنگ کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ تاہم یہ ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔