نیشنل ڈیٹابیس رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے سابق چئرمین، طارق ملک نے کہا ہے کہ انھوں نے بائیومیٹرک سسٹم کے تحت، پاکستان میں قیدیوں کے شناختی شواہد جانچنے کا عمل شروع کیا تھا۔
بقول اُن کے، ’پہلے مرحلے میں، کراچی جیل کے 107 قیدیوں کے شناختی شواہد کی تصدیق کی، تو پتہ چلا کہ ان میں سے 40 فیصد قیدی وہ نہیں جن کے دستاویزات جیل حکام نے انھیں پیش کئے تھے‘۔
اُنھوں نے یہ بات واشنگٹن میں بات چیت کرتے ہوئے بتائی۔
طارق ملک نے بتایا کہ ’نادرا کے اس تصدیقی عمل کو سراہنے کے بجائے، حکومت نے ان کی بازبرس شروع کردی تھی اور قیدیوں کے تصدیقی عمل کے منصوبے کو ہی ختم کردیا گیا‘۔
طارق ملک نے مزید کہا کہ دہشت گردی کے شکار ممالک کے لئے ضروری ہے کہ وہ بائیومیٹرک سسٹم سے استفادہ کریں۔
اس سلسلے، ان کا کہنا تھا کہ اپنے دور میں، اسی نظام کے تحت، 35 لاکھ ٹیکس نادہندگان کی نشاندہی بھی کی تھی۔ لیکن، بقول اُن کے،’حکومت نے ان کے خلاف کوئی اقدام نہیں اٹھائے۔حالانکہ، ٹیکس چوری سے حاصل ہونے والی یہ رقم، مبینہ طور پر، دہشت گردی میں بھی استعمال ہوتی ہے‘۔
طارق ملک نے کہا کہ ریاست اور عوام کے درمیان ’عمرانی معاہدے‘ پر سو فیصد درست عملدرآمد کے لئے، شناخت کے جدید ترین نظام سے مدد لینا ضروری ہے۔
بائیومیٹرک سسٹم شناخت کے شواہد، چہرے، فنگر پرنٹ اور آنکھوں کی پتیلوں سے حاصل کئے جاتے ہیں، جو قدرت نے ہر شخص میں الگ الگ ودیعت کیے ہیں۔
شناخت کے اس جدید ترین نظام کے حوالے سے، بتایا جاتا ہے کہ پاکستان نے ایک مثالی کامیابی حاصل کی ہے۔