چین میں غیرملکی میڈیا کو غیر معمولی رکاوٹوں کا سامنا

شنگھائی میں ایک پولیس اہل کار اپنا ہاتھ کیمرے کے سامنے کر کے صحافی کو کوریج کرنے سے روک رہا ہے۔ فائل فوٹو

صحافی ایمیلی فینگ نے امریکی نشریاتی ادارے این پی آر کے لیے چین سےمتعلق ایک مضمون" سنیل نوڈلز" لکھا۔ بظاہر یہ ہلکا پھلکا سادہ سا مضمون تھا مگر کسے پتہ تھا کہ یہ ان کے کے لیے وبال بن سکتا ہے۔

امریکی میڈیا کے لیے لکھے جانے والے اس مضمون کو چین کے سرکاری میڈیا نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور پھر اس پر آن لائن تبصروں کی یلغار ہو گئی، یہاں تک کہ اسے چین دشمن مضمون تک کہہ ڈالا گیا۔ حالانکہ فینگ نے یہ مضمون چین کی ایک مقبول عوامی ڈش کے بارے میں لکھا تھا۔

انہوں نے اس مضمون میں نوڈلز کی گرم گرم بھاپ سے اٹھنے والی بو یا مہک کا ذکر کیا تھا۔ انہوں نے لکھا کہ گھونگوں کے شوربے میں ابلے ہوئے چاولوں کے یہ نوڈلز چین کے عوام بڑی رغبت سے کھاتے ہیں ۔ گوانگ شی صوبے کی یہ مخصوص ڈش ہے مگر کرونا وبا کے دوران یہ ملک بھر میں مقبول ہوگئی۔

جہاں ایک طرف یہ مضمون نیوز اور سوشل میڈیا پر زیر بحث آیا وہیں چین میں غیر ملکی صحافیوں کے حالات کے بارے ایک رپورٹ بھی سامنے آئی ہے۔

وائس آف امریکہ کے لیے بو گو کی رپورٹ کے مطابق، فارن کارسپونڈنٹس کلب آف چائنا یا ایف سی سی سی نے 2021 میں میڈیا کی آزادی کے بارے میں اپنی تازہ رپورٹ جاری کی ہے ، اس میں کہا گیا ہے کہ" چین میں غیر ملکی صحافیوں کو اپنی پیشہ وارانہ ذمّہ داریاں نبھاتے ہوئے کافی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیونکہ بیجنگ کی یہ کوشش بڑھتی جا رہی ہے کہ آزاد رپورٹنگ پر قدغن لگائی جائیں اوران کوغیرمستند کردیا جائے۔

چین کی حکومت کی طرف سے ڈرانے دھمکانے اوربعض اوقات چین کے بارے میں خبریں دینے والوں کو سرے سے نکال دینے کی وجہ سے بہت سے صحافیوں کو اپنا پیشہ چھوڑنا بھی پڑا"۔

چین کی وزارت خارجہ ایف سی سی سی کو غیر قانونی قرار دیتی ہے اور چین نے کبھی اس کو تسلیم نہیں کیا۔

ایف سی سی سی کی یہ رپورٹ 31 جنوری کوجاری کی گئی اوراس میں کہا گیا کہ چین میں غیر ملکی نامہ نگاروں کی آن لائن اورآف لائن نگرانی جاری رہتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق تقریباً تمام غیر ملکی صحافیوں کو ایک سالانہ سروے کا جواب دینا ہوتا ہے۔ رپورٹ کے مرتبین کے مطابق چین میں خبر دینے کے لیے جو وسائل دستیاب ہوتے ہیں ، وہ بین الاقوامی معیار کے مطابق نہیں ہوتے۔

اسی رپورٹ کے مطابق غیر ملکی صحافیوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی بھی بظاہر چینی حکام حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ دیوانی یا فوجداری مقدمات اورعدالتوں میں پیشی کے باعث ان صحافیوں کوملک چھوڑنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی۔

ہنوئی کی ایک خوانچہ فروش خاتون گھونگھے والی نوڈلز فروخت کر رہی ہے۔ فائل فوٹو

ایف سی سی سی کی اس رپورٹ کے بارے میں پچھلے ہفتے ای میل اور فون کے ذریعے جب واشنگٹن میں چین کے سفارت خانے سے ان کا رد عمل معلوم کرنے کی کوشش کی گئی تو ان کی جانب کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

رپورٹ کے مطابق وہ صحافی جو چین میں قیام نہیں کر سکتے ، انہیں تائی پے، سنگاپور،سڈنی اور لندن سے رپورٹنگ کرنا پڑتی ہے۔ کسی زمانے میں چین سے باہرہانگ کانگ ایک ترجیحی جگہ ہو اکرتی تھی، مگر 2020 میں چین کے قومی سیکیورٹی قانون کے نفاذ کے بعد، وہاں بھی پریس کی آزادی سلب ہوگئی ہے۔ اس وسیع دائرہ اختیار والےقانون کے تحت مقامی صحافیوں کی گرفتاریاں ہو رہی ہیں اورانہیں جیل جانا پڑتا ہے۔

خبروں کے امریکی اداروں کے لیے کام کرنے والے جو صحافی وہاں باقی رہ گئے ہیں ، ان کے پریس کارڈز کی تجدید نہیں کی جا رہی ہے۔ امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، اٹلی، جاپان اور نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والے کم از 22 صحافیوں کو مستقل رہائشی ویزوں کے سلسلے میں دشواریوں کا سامنا ہے۔ حکام نے ان کے ویزوں کی مدت ایک سال سے کم کرکے دو تین ماہ کر دی ہے اور اب یہ صحافی گومگو کی کیفیت کا شکار ہیں۔

SEE ALSO: آزادیٔ صحافت کے اداروں کی  چین میں قید صحافیوں کی حالت زار پر تشویش

چین نے کرونا وائرس کی پابندیوں کی آڑ لے کر بہت سے صحافیوں کے ویزے کی درخواستوں کو زیر التوا رکھا ہوا ہے۔ اوران کی وجہ سے بہت سے میڈیا کے ادارے سٹاف کی کمی کا شکار ہیں۔ کرونا عالمی وبا کے حوالے سے جاری احتیاطی تدابیر کا سہارا لے کر حکام خبروں کے لیے دوروں اور انٹرویوز کی درخواستوں کو بھی مسترد کر دیتے ہیں۔

چینگ پنگ ایک سابق نامہ نگار ہیں اوراب جرمنی سے یہ چینی معاملات پر تبصرے کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "چین کا خیال ہے کہ اب وہ دنیا کے لیے مرکز نگاہ بن گیا ہے اور اسی لیے آپ دیکھ رہے ہیں کہ شی جن پنگ دنیا کے لیے سمت کا تعین کرتے نظر آتے ہیں۔ میڈیا اور صحافیوں پر حملوں کا مقصد واضح ہے کہ ان کو ڈرا کر رکھا جائے اور اس وقت ایسا ہی ہو رہاہے"۔"